انڈونیشیا کےصدارتی انتخاب کے سب سے بڑے مد مقابل، وزیر دفاع ، پرابو سوبیانتو نے ووٹوں کی غیر سرکاری گنتی میں بڑے پیمانے پر سبقت حاصل کرلی ہے۔
1980 اور 1990 کی دہائی میں جمہوریت نواز سر گرم کارکنوں کے اغوا کا حکم دینے والے فوجی جنرل نے پرابو سوبیانتو نے بدھ کے روز اس کے بعد اپنی فتح کا اعلان کر دیا۔
ہزاروں لوگوں نے اس وقت خوشی کا اظہار کیا جب پرابو نے کھیل کے ایک مقامی میدان میں اپنے حامیوں کو مبارکباد دی۔
انہوں نے غیر سرکاری نتائج کو انڈونیشیا کے تمام لوگوں کی فتح قرار دیا اور انڈونیشیا کے بہترین لوگوں پر مشتمل ایک حکومت تشکیل دینے کا عہد کیا۔
پولنگ ختم ہونے کے تھوڑی ہی دیر بعد آزاد پولسٹرز کے ایک سیٹ کی جانب سے جاری کی گئی غیر سرکاری گنتی سے ظاہر ہوا کہ پرابو نے لگ بھگ 60 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے ۔
جکارتہ کے سابق گورنر، انیس بیسوادان نے 20 فیصد سے ذرا ہی زیادہ ووٹ حاصل کیے جب کہ ایک اور سابق صوبائی گورنر گانجر پرانو ان سے بہت کم ووٹ حاصل کر کے تیسری پوزیشن پر تھے۔
اگر سرکاری نتائج سے یہ ظاہر ہوا کہ پرابو سوبیانتو نے کل ووٹوں میں سے 50 فیصد سے زیادہ اور انڈونیشیا کے نصف صوبوں میں کم از کم 20 فیصد ووٹ حاصل کر لئے تو وہ جون میں ووٹنگ کے ایک دوسرے مرحلے سے بچ جائیں گے اور صدارت کو قطعی طور پر جیت لیں گے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے انتخاب کے انداز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ، یہ ووٹنگ انڈونیشیا کے لوگوں کی جمہوری عمل اور انتخابی اداروں سے وابستگی کے عزم کی پائداری اور مضبوطی کا ایک ثبوت تھی۔
انہوں نے کہا، ہم جنرل الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کے سرکاری اعلان کے منتظر ہیں۔
بہتر سالہ پرابو کی صدارت کے لئے یہ تیسری کوشش تھی۔ وہ سبکدوش ہونے والے صدر جوکو ودودو سے دونوں سابقہ مقابلے ہار چکے تھے جو آئینی طور پر محدود اپنی دو پانچ سالہ مدتوں میں خدمات انجام دینے کے بعد سبکدوش ہو رہے ہیں۔
پرابو کو 1980 اور 1990 کی دہائی میں جب و ہ فوج میں ایک تھری اسٹار جنرل بننے کے مرحلے سے گزر رہے تھے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متعدد الزامات کا سامناتھا جس کے بعد انہیں ان الزامات پر برخاست کر دیا گیا تھا کہ انہوں نے جمہوریت نواز سر گرم کارکنوں کے اغوا کا حکم دیا تھا۔
پرابوو کسی بھی غلط کام کرنے کے تمام الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
انڈونیشیا کے بہت سے ووٹروں کو وہ دور یاد نہیں ہے ۔ انڈونیشیا کے اہل ووٹروں میں سے نصف 40 سال سے کم عمر کے ہیں اور ایک تہائی کی عمریں 30 سال سے کم ہیں