آنے والے خدشات اور پوائنٹ سکورنگ سمیت غیر جمہوری رویہ ۔آخر کب تک ؟؟؟؟
تحریک کے چند اہم پہلو ۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اس کائنات نے ہر زمانہ میں انسانی شعوری ارتقاء کو بہتر سے بہتر کیا جس کے باعث آج کا جدید معاشرہ وجود میں آیا ۔
جنم ِانسانی تاریخ کے مطالعہ سے اس گئی بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ ہر قوم جو آج آزاد خودمختار یا خوشحال نظر آرہی ہے یہ کسی بھی دور کے حکمرانوں کی اطاعت کی بنیاد پہ یہاں تک نہیں پہنچی بلکہ جب بھی کسی قوم نے ارتقاء کے چلن سے سبق سیکھا اور مزاحمت کا انتخاب کیا تو اس کے بدلے میں عزتیں و کامیابیاں اقوام کا مقدر بنتی ہیں۔
یہی وہ ارتقاء تھا جب پاکستانی زیرِ انتظام جموں کشمیر میں کئی دہایوں سے جاری مسلسل چھوٹی چھوٹی تحریکوں کی ناکامیوں نے ایک نئی تحریک کو جنم دیا۔ یہ سچ ہے ابتداء میں جب راولاکوٹ انجمن تاجران کے صدر سردار عمر نزیر کشمیری نے اپنے تاجر ساتھیوں سمیت 9 مئ کو سپلائی بازار راولاکوٹ کے گیٹ پہ آٹے کی بڑھتی قیمتوں کیخلاف دھرنا دیا تو اکثر لوگ اسے ماضی کی طرح ایک معمولی احتجاج ہی سمجھ رہے تھے۔ بہت سے لوگ اس احتجاج سے شعوری و غیر شعوری لاتعلقی کی پوزیشن پہ کھڑے تھے اور بس چند افراد نے اس احتجاج میں اخلاص کی بنیاد پہ ساتھ کھڑے ہونے کا عملی مظاہرہ کیا ۔ان میں تاجران کے علاوہ آزاد و خودمختار جموں کشمیر کا خواب دیکھنے والوں سمیت سماج کی دیگر پرتوں نے بھی اس صف بندی میں خود کو درست سمت کھڑا کیا۔
بہت سے کرداروں نے محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے طور پہ ماضی کی طرح اب کی بار بھی آمین کہتے ہوئے موقعہ کی تلاش شروع کر دی۔
یہ عمل وقت کے ساتھ آگے بڑھتا گیا، احتجاج، مظاہرے اور ہڑتالوں کا ایک نا ختم ہونے والا تسلسل شروع ہوا جو پہلے راولاکوٹ اور پھر پونچھ ڈویژن کے تمام اضلاع میں پھیل گیا مگر حکمرانوں نے اس کو ماضی کا حصہ سمجھا ۔
گرفتاری، دھرنے کیمپ کو اکھاڑنا جیسے عمل سے گزرنے کے بعد دوبارہ صف بندی شروع ہوئی تو ایک سوال نے جنم لیا کہ اگلا لائحہ عمل کیا ہو گا؟
اس وقت مطالبات میں کن نقاط کا اضافہ کیا جانا چاہیے ؟اس تحریک کو نظم کے ساتھ کیسے نتیجہ خیز بنایا جاسکتا ہے ۔؟
ان سوالات نے کئی ذہنوں کو جوڑنے اور منظم جدوجہد کی دعوت دی ۔پھر راولاکوٹ پہلا مشاورتی اجلاس 17 جولائی 2023 میں منعقد ہوا۔ جس میں مطالبات کو فائنل کیا گیا جس میں آٹے پہ سبسڈی ،فری بجلی اور حکمرانوں کی مراعات کے خاتمہ جیسے اہم مطالبات کو چارٹر آف ڈیمانڈ کی شکل دی۔
تین اگست مکمل ہڑتال اور بھرپور احتجاج کی کال دی گی۔
اس کے بعد پونچھ کو منظم کیا جانے لگا جس میں زیادہ محنت نہیں لگی۔دوسرے مرحلہ میں پیارے بھائی چوہدری امتیاز اسلم صاحب نے تحریک کو میرپور ڈویژن میں منظم کرنے کی ذمہ داری لی ۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب تحریک کی کامیابی و ناکامی دور تک نظر نہیں آ رہی تھی ۔حکمران طبقہ اپنی پوری فرعونت کے ساتھ عیاشی میں مصروف تھا۔اس مرد قلندر نے عمر نزیر کشمیری اور دیگر بنیادی ساتھیوں کے ہاتھ میں ہاتھ دیا اور مصلحت کو شکست دینے اور ہر طرح کی قربانی سے گزر جانے کا عہد کیا ۔
پھر دن رات کا سفر منٹوں میں گزرنے لگا ۔اس دوران 30 مئ 31 مئ۔21 جون 3اگست۔31 اگست 5 ستمبر۔ جیسی عوامی احتجاجی کالیں دی گئیں۔ جس نے سہولت کاروں کی نئی صف بندی کی ۔جن سہولت کاروں کے نام اپنے کردار کی وجہ سے سامنے آئے ،ان میںمظفرآباد سے سردار رزاق نامی ایبٹ آباد کا شہری حال مقیم مظفرآباد اپنے ساتھی حافظ طارق محمود خود ساختہ صدر پونچھ ڈویزن اور چند دیگر ہم خیال سہولت کاروں کے ساتھ سرفہرست رہا ۔ان سہولت کاروں نے تحریک کے خلاف پریس کانفرنسیں کی ۔پاکستانی اداروں کی ڈکٹیشن پہ عمل کرتے ہوئے تحریک کی مخالفت کی، ہڑتالوں کو مسترد کرنے کی ناکام ڈارمہ بازی کی ۔
ان ہڑتالوں کی مخالفت دوسرے غیر جمہوری گروپ کے سربراہ سردار افتخار فیروز کی طرف سے بھی کی جاتی رہی ۔دونوں خود ساختہ صدور نے کوئی موقع ضائع نہیں کیا جس میں تاریخی مخالفت اور سہولت کاری کا کردرا ادا نہ کیا گیا ہو۔
ان صاحب نے لوکل انتظامیہ کے چاکری میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ جبکہ رزاق ایبٹ آبادی نے آئی ایس آئی کی بھرپور نوکری کی۔ البتہ عام تاجر نے شعوری بیداری کے بےمثال کردار کو جنم دیا۔ ہر ہڑتال،احتجاج کو اپنی تحریک سمجھ کر قربانی دی جو اب ہماری تحریک کی کامیابی کا خوبصورت باب بن چکا ہے۔
قبل ازیں پونچھ ڈویژن کے اضلاع کی حد تک ہی مشاورتی اجلاس منعقد ہوتے رہے کیونکہ باقی ڈویژنز میں اس وقت تک ایکشن کمیٹی اس انداز منظم نہیں تھی اور ایکشن کمیٹی ان دو ڈویژنز میں منظم کی جا رہی تھیں۔ اسی دوران 17 جولائی کو راولاکوٹ آل آزاد کشمیر لیول کا ایک مشاورتی اجلاس ہوا جس میں میرپور ڈویژن اور پونچھ ڈویژن کے ذمہ داران نے بھرپور شرکت کی جبکہ مظفرآباد ڈویژن سے بنیادی ساتھیوں کے ہمراہ راجہ عاقب ایڈووکیٹ نے شرکت کی اور مظفرآباد کو بھر پور شامل کرنے کی ذمہ داری لی۔
اس اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ آزاد کشمیر کے ہر چھوٹے بڑے شہروں میں غیر معینہ مدت کیلئے احتجاجی دھرنوں کا انعقاد کیا جائیگا۔باغ میں دھرنا لگانے پہ میری اس وقت کے تنظیمی اور دیگر چند آزادی پسند دوستوں نے عثمانیہ ہوٹل کے سامنے شروع کیا جس کی مخالفت باقی سب ہمارے اپنے قریبی ساتھیوں نے بھی کی ۔یہی وجہ تھی کہ میری گرفتاری کے بعد دوبارہ باغ میں دھرنا کوئی نہ لگا سکا ۔یہ سوال میرا مزاحمت کا درس دینے والوں سے ہمیشہ رہے گا؟؟ پھر تین اگست کے احتجاجی پروگرامات کے بعد دھرنے پورے آزاد کشمیر میں باقائدہ طور لگا دیئے گئے۔
تین اگست کو پونچھ ڈویژن سمیت میرپور ڈویژن کے شہر کوٹلی میرپور بھمبر میں تاریخی اجتماعات دیکھنے کو ملے۔جبکہ تین اگست کو مظفرآباد پریس کلب کے باہر بنیادی ساتھیوں نے احتجاج کیا جس سے میرپور اور پونچھ ڈویژن کے ساتھ اظہار یکجہتی کی گئی۔
اس کے بعد 7 اگست تینوں ڈویژنز کا مشاورتی اجلاس بمقام کوٹلی منعقد ہوا ۔جس میں آزاد کشمیر بھر سے بجلی بلات بائیکاٹ مہم کا آغاز کیا گیا اور اسی اجلاس میں 22 اگست 2023 کو بجلی بلات کے جلانے اور 5 ستمبر کی عام ہڑتال کا بھی اعلان ہوا۔ جس کے بعد آبشار چوک دھرنے میں ساتھیوں سمیت شرکت کی گئی اور تحریک کے بنیادی کردار جناب عمر نذیر کشمیری کی قیادت میں بجلی بلات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا جس کو تینوں ڈویژن کی عوام نے کھلے دل سے قبول کیا۔
اسی موقع پہ 22 اگست کوبجلی بلات مشترکہ طور پہ تینوں ڈویژنز میں نذرآتش کرنے کا اعلان کیا گیا۔
22 اگست کو میرپور ڈویژن کے مین شہروں جبکہ پونچھ ڈویژن کے تمام اضلاع میں بجلی بلات کو نذر آتش کیا گیا۔
یاد رہے ہم نے باغ میں 21 اگست کو بجلی بلات ایک مارکیٹ کی حد تک کچھ مخصوص حالات میں نذر آتش کیے۔
(باغ کے عظیم سہولت کار حافظ طارق صاحب اس دن رزاق ایبٹ آبادی کے ساتھ مظفرآباد پریس کانفرنس فرمارہے تھے۔)
تحریک کو مظفرآباد ڈویژن میں منظم کرنے کے لیے چوہدری امتیاز اسلم ،عمر نذیر کشمیری ،شاہزیب بھائی،ثاقب کشمیری،غلام مجتبیٰ،سردار شاہد ،فیصل ملک اور سردار عثمان کاشر (بقلم خود) نے رزاق ایبٹ آبادی اور شوکت نواز میر صاحب سے تفصیلی ملاقات کی ۔
ان ملاقاتوں نے عظیم سہولت کار رزاق ایبٹ آبادی اور شوکت نواز میر صاحب کو سمجھنے میں مدد دی ۔ایبٹ آبادی صاحب نے مختصر ملاقات میں ہی اپنی اصلیت بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میں اداروں کے ان بستروں پہ سوتا ہوں جن پہ کوئی اور نہیں سو سکتا ۔ان جگہوں پہ جاتا ہوں جہاں اور کوئی نہیں جاسکتا ۔اس دوران سہولت کاری کا تحریک دشمنی کا کوئی موقع ان کے ہاتھ سے نہیں گیا۔جبکہ میر صاحب جن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پورے پاکستانی زیرِ انتظام جموں کشمیر کے واحد جمہوری تاجران کے ووٹ حاصل کرکے بننے والے صدر ہیں۔16 سمتبر 2023 کو مظفرآباد میں تاریخ ساز تیسرا مشاورتی اجلاس شوکت نواز میرصاحب کی فرمائش پہ مظفرآباد کے مقامی ہوٹل میں منعقد ہوا ۔جس میں جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے نام سے ایک عبوری ادارہ وجود میں آیا۔
نوٹ :(اس ادارے کے بننے اور اس رات پیش آنے والے مخصوص رویوں کی تفصیل اور دھرنے ،گرفتاری سمیت دیگر اہم پہلوئوں پہ ایک الگ کالم میں تحریر کروں گا ۔راقم)
البتہ تاجران کو اب خودساختہ باڈی سے باہر نکل کے خاص جمہوری اقدار پہ مبنی تنظیم سازی کرنی چاہیے۔کئی ایسی جگہیں ہیں جہاں اس فلاحی تنظیم کے خود ساختہ صدور موجود ہیں ۔میرپور میں اپنی مارکیٹ بنانے کے بعد خود ہی صدر انجمن تاجران بن جاتے ہیں ۔جبکہ باقی جگہ بھی جس کی صدر بننے کی خواہش ہو وہ صدر بن جاتا ہے یہاں تک کہ کوئی پونچھ ڈویژن کا صدر ہے اور کوہی پورے پاکستانی زیرِ انتظام جموں کشمیر کا ۔آخر یہ مذاق کب تک؟؟؟
غیر جمہوری سوچ کی عکاسی کا اندازہ اس بات سے لگائیے جیسے کہ گذشتہ دنوں کوٹلی میں ایک ڈارمہ بازی کے ذریعہ غیر جمہوری طریقہ کار اپنایا گیا جس میں سابقہ سارے عہدے دار اپنی گذشتہ پوزیشن پہ رکھے گئے اور باقی کنونشن میں آنے والوں کو اکثریت میں نائب صدور کے عہدے بانٹے گئے ۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس غیر جمہوری مذاق سے سہولت کاری کو تقویت ملے گی اور حقیقی لیڈر شپ جو تاجران کی قیادت کے حقدار ہیں ان کے سامنے ایک دیوار بنا دی گئی جس کا نقصان آنے والے وقتوں میں سامنے آئے گا۔
ان مرکزی صدر صاحب آل آزاد کشمیر انجمن تاجران نے رابطہ کمیٹی نام کا ایک نہام نہاد اتحاد بنانے میں عوامی ایکشن کمیٹی کے خلاف بھی بھرپور رول دیا اور اس سے قبل انہی موصوف نے جب جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی حکومتی کمیٹی کیساتھ مذاکرات میں مصروف تھی ان خود ساختہ غیر جمہوری آل آزاد کشمیر انجمن تاجران صدر موصوف نے چند افراد کیساتھ ملکر راولاکوٹ کے مقام پر بازار بند کروانے کی کوشش کی جس میں وہ بری طرح ناکام ہوئے۔محض چالیس پچاس لوگوں نے مظاہرے کے نام پر اپنا مذاق اڑوایا اور بجلی بلات نذ آتش کئے۔
یہ اقدام سرا سر ایکشن کمیٹی کے اس اعلان کی مخالفت میں کیا گیا جبکہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے اس مرتبہ بجلی بلات وزیر اعظم کو بذریعہ ڈاک پارسل بھجوانے کا پورے آزاد کشمیر بھر سے فیصلہ کیا تھا۔ اسی طرح گذشتہ دنوں کوٹلی میں ہونے والے تاجران کے کنونشن میں بھی انہی نام نہاد خود ساختہ غیر جمہوری صدر کو پرجیکشن دینے کیلئے ایکشن کمیٹی کی لازوال قربانی محنت اور عوامی شہرت کا کندھا استعمال کیا گیا او حقیقی تاجران کی قیادت کو غیر جمہوری اقدامات کے ذریعہ دیوار کیساتھ لگایا گیا۔
آج کے بعد بھی ان موصوف سے کسی جرأت مند تاریخی و قومی نوعیت کے رول کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ان کے ساتھ ایک ایم آئی کےخاص ملازم بھی منصوبہ بندی کا مرکزی کردار ادا کرتے ہیں ۔ بظاہر صحافت کے لبادے کے پیچھے چھپ کے ناصرف وہ صحافی موصوف ان صدر صاحب کی ذہن سازی میں مصروف ہیں بلکہ کئی قوم پرست ترقی پسند رہنماؤں کو گمراہ کرنے اور عوامی تحریک کے خلاف کسی نئے نیشنلسٹ اتحاد کا ڈرامہ رچانے میں بھی مصروف ہیں۔
پوائنٹ سیکورنگ۔قومی تحریک کو اپنے کھاتے میں ڈال کے سیاسی بالادستی اور نظریاتی بالادستی جیسی صورتحال کے پیش نظر میری شوکت نواز میر صاحب سے بطور ساتھی بھائی گزارش ہے کہ آپ ماضی کی ساری صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی ذات کو مشکوک نہ بناتے ہوئے آگے بڑھنے کا راستہ اپنائو گے ۔آپ کا تحریک میں نمایاں رول ہے البتہ گروہوں کے سربراہ ہمیشہ سے کھل کے تحریک کی مخالفت اور سہولت کاری میں اپنی مثال آپ رہے۔ اس لیے ان کا بیانیہ آپ نہیں اپناہیے گا جیسا کوٹلی تاجران کے پروگرام میں اپنایا گیا ہے ۔
اور عام آزادی پسند وطن دوست انقلاب پسند اور ترقی پسند ساتھیوں کو بھی آنکھیں کھلنے اور اپنی لازوال قربانی کو بچانے کی درخواست کرتا ہوں۔باقی وقت پہ چھوڑتے ہیں۔
نوٹ
اگر کوئی بات جھوٹی ہے تو نشاندھی کی جائے ۔ہمارا مقصد آنے والی نسلوں کے لیے تحریک کے حقائق لکھنے کا سفر جاری رکھنا ہے ۔ہر ایک کو اسکے رول کے مطابق جائز مقام پہ رکھنا انصاف کے قلم پہ فرض ہے۔
٭٭٭