موجودہ عوامی تحریک کو ہم ساہنسی تناظر اور نقطہ نظر سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بغیر تضاد کے چیزیں کبھی پیش رفت نہیں کرتیں ۔ جہاں حرکت ہو گی وہاں تضاد بھی ضرور ہو گا یہ جدلیاتی اصول ہے ۔ چونکہ آج انسانی سماج تضادات کا مجموعہ ہے ، اس لیے تحریکوں میں بھی تضادات کی شکلوں کا مطالعہ کرتے ہوئے ان کے حل کی طرف پیش رفت کرنا چاہیے ۔
موجودہ عوامی تحریک میں عوام اور حکمران اشرافیہ بشمول قابض قوتوں کے درمیان تضاد موجود ہے اور اسی تضاد پر عوامی تحریک کھڑی ہے ۔ یہ تضاد غیر معاندانہ تضاد ہے جس کا حل یا تو عوام کو ان کے مطالبات میں موجود حقوق ملیں، یا پھر ریاست جبر و تشدد سے وقتی طور پر تحریک کو کچل دے ۔ یوں تضاد کی اس شکل اور نوعیت کو ہم بنیادی تضاد کہہ سکتے ہیں، جو فتح اور شکست کے اصولوں پر منتہج ہے اس میں ایک کی فتح اور دوسرے کی شکست لازم ہے ۔
عوامی تحریک میں داخلی طور پر بھی تضادات موجود ہیں جو مختلف اوقات میں مختلف صورتیں لیے ابھرتے ہیں، جیسا کہ 11 سے 13 مئی کے لانگ مارچ کے دوران یا اس سے پہلے اور اب یہ تضادات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ جیسے اسیران کی رہائی پر کوٹلی کے مقام پر اس تضاد کی انتہائی بھونڈی شکل سامنے آئی ، یہ تضاد اندرونی ہے یعنی عوامی تحریک میں عوامی پرتوں میں آپسی تضاد ہے، یہ داخلی تضاد ہونے کیساتھ ساتھ معاندانہ تضاد ہے جو قابل حل ہے۔ اس معاندانہ تضاد میں فتح اور شکست کا پہلو یا عنصر موجود نہیں ہوتا ، بلکہ مثبت انداز میں آپسی گفت و شنید جو نتیجہ خیز ہو اس سے اس معاندانہ تضاد کو حل کیا جا سکتا ہے ۔
معاندانہ تضاد غیر بنیادی اور قابل حل تضاد ہوتا ہے ۔ ایسا تضاد حکمرانوں میں بھی پایا جاتا ہے جس کی بنیاد پر کبھی کبھی کوئی حکمران عوامی تحریک کی حمایت میں گفتگو کر لیتا ہے یا وقتی طور پر عوامی حقوق دھرنے میں بھی آکر بیٹھ جاتا ہے، لیکن جلد ہی اجتماعی طبقاتی مفادات ان حکمرانوں کو آپس میں جوڑ دیتے ہیں اور یہ تضاد حل ہو جاتا ہے ۔
تضاد کے ان دونوں پہلوؤں کو سمجھ کر ہمیں ان کے حل کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے، سلجھے ہوئے سیاسی ورکرز کا یہی رول بنتا ہے۔
تضاد کی ابتدائی شکل غیر معاندانہ تضاد جو عوام اور حکمرانوں کے درمیان ہے ، اس تضاد کو مزید گہرا کرنے کے لیے، پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا سمیت ہر جگہ گفتگو میں ہمیں عوامی تحریک کے حق میں اور حکمرانوں کی عوام دشمنی کیخلاف اپنے قلم اور زبان کو استعمال کرنا چاہیے،
جبکہ عوامی تحریک میں سامنے آنے والے معاندانہ تضاد کو اصولی بنیادوں پر جلد حل کرنے میں اپنا مخلصانہ کردار ادا کرنا چاہیے ، اس داخلی تضاد کو کسی طرح کے میڈیا کی زینت نہیں بنانا چاہیے ، آپس میں بیٹھ کر گفت و شنید سے حل کرتے ہوئے ایسے اصول بنانے چاہیے جو داخلی تضادات کو کم سے کم کرنے میں سود مند ثابت ہوں