پاکستانی زیر انتظام مقبوضہ جموں کشمیر کے کونسل نے پاکستانی ملازمین کو مستقل تعینات کرنے کے نوٹیفکیشن کو ہائی کورٹ کشمیر میں چیلنج کر دیا گیا

مقبوضہ جموں کشمیر(نمائندہ کاشگل ) پاکستانی زیر انتظام مقبوضہ جموں کشمیر کے عبوری آئین 1973 میں کشمیر کونسل کے غیر ریاستی ملازمین کو کشمیر میں مستقل تعینات کرنے کے آرٹیکل 51 اے کی شق نمبر 2 سمیت اور محکمہ سروسز کی طرف سے 17 اپریل 2024 اور 31 مئی 2024ء کو کشمیر کونسل کے 136 غیر ریاستی ملازمین کی کشمیر کے مختلف محکموں میں تعیناتی کے نوٹیفکیشن کو ہائی کورٹ کشمیر میں چیلنج کر دیا گیا۔ پٹیشنرز سید ماسر علی تابان گردیزی ایڈووکیٹ، شاہد زمان اعوان ،ذیشان حیدرایڈووکیٹ کی طرف سے سید ذولقرنین رضا نقوی ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اور سردار مطیب احمد ایڈووکیٹ ہائ کورٹ نے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی ہے جس پر عدالت عالیہ کے جج سید شاہد بہارنے فریقین کو نوٹسز جاری کر دئیے ہیں۔ گزشتہ روز ترجمان حکومت کی طرف سے غیر ریاستی ملازمین کی پاکستانی زیر انتظام مقبوضہ جموں کشمیر میں غیر آئینی و غیر قانونی تعیناتیاں وزیراعظم حکومت ریاست جموں کشمیر چوہدری انوار الحق کی حکومت نے آئین و قانون اور سول سرونٹس رولز کے مغائر کشمیر کونسل کے 136 غیر ریاستی ملازمین کو مختلف محکموں میں تعینات کیا ہے، محکمہ انٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ میں 26 ملازم، سروس ٹریبونل میں 4 ملازم، سیکرٹریٹ ان لینڈ ریوینیو میں 7 ملازمین، سیکرٹریٹ جنگلات میں 4 ملازم، پبلک سروس کمیشن میں 13 ملازم، سیکرٹریٹ انرجی اینڈ واٹر ریسورسز میں 6 ملازم، سیکرٹریٹ سیاحت میں دو ملازم، ایڈووکیٹ جنرل دفتر میں 14 ملازم، چیف انجنیئر بلڈنگز نارتھ میں 5 ملازم، سنٹرل ٹرانسپورٹ پول میں 2 ملازم، فنانس ڈیپارٹمنٹ میں 2 ملازم، سیکرٹریٹ انڈسٹریز میں 1 ملازم، گورنمنٹ گیسٹ ہاوسز میں 5 ملازم، سیکرٹریٹ فزیکل پلاننگ اینڈ ہاوسنگ میں 5 ملازم، سیکرٹریٹ صحت میں 3 ملازم، لوکل گورنمنٹ سیکرٹریٹ میں 2 ملازم، سیکرٹریٹ کمیونی کیشن اینڈ ورکس میں 2 ملازم، اکاونتنٹ جنرل دفتر میں 2 ملازم، محکمہ قانون و انصاف میں 2 ملازم، بورڈ آف ریوینیو میں 1 ملازم، محکمہ داخلہ میں 3 ملازم ، آرمڈ سروسز بورڈ میں 4 ملازم ، چیف سیکرٹری دفتر میں 6ملازم اور سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن میں 15 ملازم تعینات کیے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ ماضی میں کشمیر کونسل نے اپنے رولز میں ترمیم کرکے ریاستی لوگوں کی بجائے پاکستانی شہریوں کو بھرتی کرنے کی گنجائش رکھی تھی، ان رولز کو آزاد کشمیر ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا اور ہائی کورٹ نے ان رولز کی وہ شرط کالعدم قرار دے دی تھی، کشمیر کونسل نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جس پر سپریم کورٹ نے وہ اپیل خارج کردی تھی مگر کونسل نے اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا ۔ قانونی ماہرین کے مطابق ان ملازمین کیپاکستانی زیر انتظام مقبوضہ جموں کشمیر میں تعیناتیاں غیر قانونی ہیں ،کشمیر کونسل میں جو پاکستانی شہری بھرتی ہوئے تھے قوانین میں تبدیلی کرتے ہوئے ان ملازمین کی حد تک پشتنی باشندہ کی شرط سے استثنیٰ دینا ہوگا وگرنہ انہیں ملازمت سے فارغ کرناقانونی تقاضا ہے۔دوسری جانب آزادکشمیر اسمبلی سے منتخب ممبران کونسل کا بھی موقف ہے کہ کشمیر کونسل کا وزارت امور کشمیر سے کوئی تعلق باقی نہیں ہے، کونسل کے بارے میں تمام اختیارات ممبران کونسل کا مینڈیٹ ہیں، تیرویں آئینی ترمیم کے بعد جتنے بھی کونسل کے ڈیپوٹیشن پر ملازم تھے حکومت نے ان ملازمین کو واپس کرنا تھا، کونسل کے غیر ریاستی ممبران کو وزارت امور کشمیر میں بھیجا جا سکتا تھا لیکن حکومت نے جلد بازی کرتے ہوئے غیر قانونی کام کیا گیا۔ کونسل میں موجود ایسے ملازمین جن کا سروس ریکارڈ انتہائی خراب اور ان پر سنگین نوعیت کے مقدمات درج ہیں ان کو کونسل سے نکالنے کی بجائے چار، چار اہم چارج ان کو سونپ دیئے گئے ہیں جبکہ ڈیپوٹیشن پر کشمیر کونسل میں ملازمت کرنے والے تمام ملازمین کو کشمیر کی سول سروس کا حصہ بنانا غیر قانونی ہے، ان ملازمین کی خدمات اپنے اصل محکمہ جات کو سونپی جانی چاہیے تھی لیکن حکومت نے انہیں اپنے ذمہ لے لیا ہے۔ یاد رہے کہ وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان نے 30 جنوری کو کونسل کے اختیارات منتقل کرنے کے حوالے سے چار نوٹی فکیشن جاری کیے تھے جن کے بعد ان ملازمین کی ذؐہ داری حکومت کشمیر نے اپنے ذمہ لے لی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے