ہونک بلوچ شہید علی جان کا قلمی نام تھا۔ شہید علی جان بلوچ نے یہ تحریر2012 میں بی این ایم کے مرکزی ترجمان زرمبش کے لیے لکھی تھی۔ہونک بلوچ کے قلمی نام سے وہ شہادت تک لکھتے رہے ہیں،انکی کئی تحاریر ماہنامہ سنگر میں بھی شائع ہوئے ہیں، جو ادارہ کے پاس محفوظ ہیں۔
پاکستان کی نصا ب کی کتابوں میں ہمیں یہ پڑھایا جاتا رہا ہے کہ مسلمان اور ہندو دوالگ الگ قوم ہیں۔جن کی وجوہ ہیں۔ان کے کھانے پینے کی اشیا میں بڑافرق ہے۔مسلمان گو شت شوق سے کھاتے ہیں جبکہ ہندو گائے کا گوشت کھانا حرام سمجھتے ہیں۔
مسلمانو ں کی عبادت گاہیں کھلی اورہوا دار ہیں جبکہ ہندوؤں کی مندریں تنگ وتاریک ہیں۔
مسلمان ایک خدائے واحد کی عبادت کرتے ہیں۔اورہندو بتوں کو پو جتے ہیں۔وغیرہ
مسلمان اور ہندو کو الگ الگ کہنے والا شخص سرسید کو قرار دیاجاتاہے (ہم سرسید کی شخصیت پر بعد میں نظر ڈالیں گے)
آئیے سب سے پہلے قوم کی تعریف پر غور کریں تاکہ ہمیں آسانی ہو کہ مسلمان ایک قوم نہیں بلکہ ایک امت ہے۔
قومیت کی تعریف: بنی نوع انسان کی وہ جمعیت جو اپنے اندر مشترکہ ہمدردیوں (مفاہمت) کے سبب آپس میں متحد ہوں قومیت کہلاتی ہے یہ ایک ایسا اتحاد ہے جو ان کے اور دوسروں کے درمیان نہیں پائی جاتی اور جس کے سبب وہ دوسروں کی بہ نسبت آپس میں تعاون کرنے پر رضامند ہوتے ہیں جو رضامندانہ طور پر ایک حکومت کے اندر رہنا اور اپنی حاکمیت چاہتے ہوں (جان اسٹورٹ مل)
اسٹالن کے مطابق مشترکہ خصوصیات زبان، علاقہ، معاش، زندگی اور نفسیاتی بنیادیں ایک قوم کی اثاثہ ہیں۔ بلوچ دانشور عزیز محمد بگٹی اپنی کتاب”وسائل میں مسائل“میں قومیت کے بارے یوں اظہار خیال کرتاہے قومیت انسانوں کو مختلف اورالگ سیاسی رشتوں میں منظم کرتی ہے اس کے اقدار الگ ہوسکتے ہیں اس کی ہئیت ترکیبی میں تبدیلی آسکتی ہے لیکن بنیادی حقیقت اس طرح بیان کی جاسکتی ہے کہ اُس میں جذبات کی یکسانیت اور ہم آہنگی کے پختہ رشتے ”وہ اور ہم“ کے فرق کی شناخت کو ظاہرکرتے ہیں گویا ہم ان سے الگ وجود رکھتے ہیں اوروہ ہمارے مقابلہ میں اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔ دیوبند کے معروف عالم دین مولانا حسین احمد مدنی (مجلس احرار کا صدر اور بعد ازاں جمعیت علمائے ہند کے قائد)نے بہت ہی واضح طور پر اس موقف کی دلالت کی ہے کہ مذہب ایک آفاقی حقیقت ہے اور اسے قومی حدود میں قید نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ آپ نے مذہب کو نجی مسئلہ قرار دے کر مسلمانوں کو ہندوؤں کے ساتھ انگریزوں کے خلاف ہندوستان کی آزادی کے لئے ساتھ دینے کی تلقین کی بلکہ آپ نے ا ور دیوبندی علماء نے کبھی اسلامی ریاست یا مسلم ریاست کے قیام کے لئے کوئی دلیل نہ دی تھی آپ نے قومیت کو جغرافیہ سے جڑا قرار دیا اور مسلمانوں کو ہندوستانی قوم سے وابستہ قرار دے کر ہندوستانیوں سے اپنی وفاداریاں نبھانے کی تلقین کی۔
امّت اور قومیت میں فرق
لفظ امت کا تعلق مذہب سے ہے جس کا معنی ہے ایک نبی پرایمان لانے والے اور فرمانبردار گروہ جبکہ قوم کو مذہب سے کوئی تعلق نہیں قوم کے اجزائے ترکیبی زبان، معاش، جغرافیہ، ثقافت و مشترکہ روایات ہیں۔ مثال کے طور پر احمد اور اکبر دو دوست ہیں احمد کا تعلق سندھ سے زبان سندھی اور لباس رسم و رواج کے لحاظ سے سندھ کلچر سے وابستہ ہے مسلمان ہے جبکہ اکبر کا تعلق پنجاب سے زبان پنجابی اور لباس اور کلچر پنجابی ہے یہ بھی مسلمان ہے اب دونوں ایک ہی قوم کے آدمی نہیں ہیں بلکہ ایک ہی امت سے ہیں مگر ہمقوم نہیں کیونکہ اکبر سندھی نہیں جانتا اور اس کی کلچر کو نہیں اپناتا اس لئے سندھی بن سکتا امت محمدی میں سارے مسلمان شامل ہیں چاہے وہ انگریز ہو افریقی، نیگرو،بلوچ پنجابی، سندھی پٹھان روسی، آذری ہو۔ ایک اور مثال لیں شہزاد اور جگت سنگھ دونوں پنجابی ہیں لیکن شہزاد مسلمان اور جگت سنگھ سکھ ہے پھر بھی دونوں ہمقوم ہیں اور جگت سنگھ امت محمدی میں شامل نہیں ہمیں سمجھنا چاہئے کہ مسلمان ایک امت ہیں اور اس امت میں شامل سارے کے سارے ہمقوم نہیں کوئی آذر ی ہے کوئی کرغز، کوئی عرب ہے تو کوئی پٹھان۔
اب ہم سر سیداحمد سے متعلق کچھ آگاہی حاصل کریں گے۔
حمزہ علومی کی کتاب ”پاکستانی ریاست اور اس کابحران“میں اسکے بارے میں درج ہے کہ سر سید احمد خان اپنے عہد کا سب سے معتبر شخصیت،موثرعملی منتظم ہونے کے ساتھ ساتھ نظریہ ساز، بہت اہم فکر اور دانشو ر بھی تھے۔اس کے گھروالوں کا مغل دربار سے دیرینہ مراسم تھے۔اقتصادی زبوں حالی سے چھٹکا رے کیلئے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم بن گئے۔اور سب جج کے عہد ے تک جا پہنچے۔
ان کا رول اور زندگی کامشن یو پی کے مسلم بالائی طبقے کو نوآباد یاتی تنخواہ دار طبقے میں تبدیل کرنے کیلئے راہ ہموار کرناتھی۔قدامت پرست علماء کے زیراثر روایتی نظام تعلیم کی بجائے یوپی کی مسلما نوں کو انگریزی تعلیم حاصل کرنے تر غیب دی۔
یوپی میں آباد 13 فیصد مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں میں برابر کا حصہ دار قرار دیتے تھے کہ یو پی کی بالا ئی طبقے میں انہیں غلبہ حاصل ہے۔
”اصل مسئلہ دونوں قومیتوں سے برابری کی سطح پہ برتاؤ کرنے کا مطالبہ نیز ملازمتوں میں بھی ہندو ؤں اور مسلمانو ں کو ایک جتنا حصّہ دینے کیلئے سرکار کو قائل کرناتھا“۔ ”سرسید احمد خان نے مسلمانوں کی اقتدارکی بحالی یا پھر اسلامی ریاست کے قیام کی حمایت کبھی نہ کی اور نہ ہی وہ آزادی یا جمہوریت کے خواہاں تھے“۔
انگر یزوں کی حکومت کوہی مسلم تنخواہ دار طبقے کی مفادات کے تحفظ کا ضامن اورانہی کی وجہ سے یو پی کے مسلمانوں کو
ہندووں کے مسا وی حقوق مل سکتے تھے۔
حمزہ علوی کے الفاظ میں سرسیداحمد خان کا سیاسی افق یوپی کی جغرافیائی حد ود تک محدود تھا۔اور ان کے دلائل کے منطق کا دائرہ مسلم اکثر یتی صوبوں کو اپنے حصار میں لینے سے قاصر تھا۔
اگرچہ اس نے انگریزی تعلیم پر توجہ دی۔اور ادار ے قائم کیے۔مگر اس شخص کو ”دوقومی نظریہ“کابانی مبانی قرار دینا اتنا ہی بڑا جھوٹ ہے جس طرح علامہ اقبال کو مفکر پاکستان قرار دینا۔
مفکر پاکستان تشہیر کردہ اس شخص کو حمزہ علوی جدید یت کا پرچارک اور روشن خیال تصورکرتاہے۔
پاکستان کی بانی تنظیم مسلم لیگ کے قیام کی وجو ہات
شمالی ہندو ستا ن اور خاص طورپریوپی میں کہ جہاں مسلمان حکومت کی ملازمتوں میں زیادہ حصہ دار تھے انہیں اس وقت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ جب دوسری کمیونٹیز،حکومت کی انتظامیہ میں آنے لگیں۔جس کی وجہ سے اب تک ملازمتوں پر ان کا تسلط خطرے میں پڑ گیا۔ حکومت کے اعلیٰ عہدوں میں ان کا حصّہ جو 1857 ء میں 64 فیصد تک وہ 1913 ء میں 35 فیصد ہوکر رہ گیا۔ یہ کمی انتہائی اہم تھی۔
پنجاب میں جہاں مسلم آبادی 52.5 فیصد تھی یہاں مسلم تنخواہ داروں کا تناسب 32 فیصد تھا۔ لہٰذا اِن دو علاقوں میں نام نہاد مسلم نیشنل ازم کی ابتدا ہوئی۔
تنخو اہ دار طبقے نے نوآبادیاتی نظام کو اپنی ترقی میں رکاوٹ سمجھا اوراسکے خاتمے کیلئے تیارتھا۔ تحریک کو وسعت دینے کیلئے عوام کی شمولیت مفقود تھی۔ اس لئے بعدازاں محمد علی جناح نے سند ھ، پنجاپ اورمشرقی بنگال کے زمینداروں سے معا ہدے کرکے ان کی حمایت حاصل کی۔
”وہ علاقے کہ جہاں مسلم لیگ بہت زیادہ طاقتور تھی۔وہ یو پی اوربہار کے صوبے تھے۔لہٰذا مسلم نیشنل ازم،دراصل وہ تحریک تھی کہ جس کے ذریعہ مسلم تنخواہ دار اپنی مراعات کو برقرار رکھنا چاہتے تھے۔“
سندھ میں مسلمان یا تو زمیند ار تھے اور یا کسان۔ پنجاب میں سیاسی طاقت اور اقتدار سیکولر پارٹی یو نینسٹ میں شامل تھے۔بنگلہ دیش میں آزادی سے پہلے طاقتور پارٹی فضل حق کی سیکولر کریشک پروجا پارٹی تھی۔اس وقت اس نے مسلم لیگ سے تعاون کیا جب آزادی ملنے کا یقین پختہ ہوگیا۔کیونکہ اس نے بنگال میں اقتدار سنبھال لیا تھا۔
تحریک پاکستان میں شمولیت کی بنیاد پر تنخواہ دار طبقہ ”نے دوسری شناختوں کے مقابلے میں خود کو مسلم ثقافت سے روشنا س کرکے۔”دوقومی نظر یہ“کو اپنایا ۔قیام پاکستان کے بعد عملی طور پر اس کی ضر ورت نہ رہی۔
حمزہ علوی کے مطابق”ہندوستان کے بر عکس مسلم لیگی لیڈر شپ کو آزادی اتفاق سے مل گئی۔ یعنی پاکستان کو ملنے والی آزادی ہندوستان کی آزادی کیلئے چلائی گئی عوامی جدوجہد کی ضمنی پیدا وار تھی۔“
مسلم لیگ نے انڈ ین نیشنل کا نگر یس کے اس دعوے کو جھٹلا یا کہ وہ ہندوستان کے مسلما نوں کی نما ئند گی کرتی ہے۔بلکہ مسلم لیگ خود کو ہندوستانی مسلمانوں کی واحد نما ئندہ جماعت کہتی رہی۔ اس جماعت کے واحد رہنما محمد علی جناح نے ہمیشہ انگر یز وائسر ائے اور گورنروں سے مذاکرات کوعوامی تحریک پر تر جیح دی۔1937 ء میں انتخابات میں مسلم لیگ کو سخت شکست ہوئی۔ آسام ایک مسلم اکثر یتی صوبہ تھا جہاں مسلم لیگ نے 9 نشستیں حاصل کرکے حکومت بنالی تھی۔ اگرچہ کانگریس نے 35 نشستیں حاصل کی تھیں۔
1937 ء کے انتخابات میں بری طرح شکست کے بعد جناح کواس تکلیف دہ حقیقت کا احساس ہوا کہ مسلم لیگ کے اس دعوی کو جواز فراہم کرنے کیلئے کے وہی ہندوستان کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔یہ اشد ضروری ہے کہ مسلم اکثر یتی صوبوں میں زمیندار طبقے کی رہنماؤں کی حمایت حاصل کی جائے۔
پنجاب اور سند ھ کے زمیند اروں نے محسوس کی کہ آزاد ہندوستان کے اندر کانگریس کی زرعی اصلا حات انہیں ڈبو دے گی تو وہ مسلم لیگ کی صفوں میں شامل ہوگئے اور مسلم لیگ کو اپنی ماتحت تنظیم بنا لیا۔
1945-46ء کے الیکشن میں منتخب ہوکر صوبائی ایوان نمائند گاں تک پہنچے تھے۔
دو قومی نظریہ پر نظر یہ پاکستان کی تخلیق
پاکستان نامی نئی ریاست میں انتخابات کے ا نعقادسے مسلم لیگ کتراتی رہی۔ اس کی وجہ مسلم لیگ کی غیرمقبولیت تھی۔مارچ 1954 ء میں صوبائی انتخابات میں مشرقی پاکستان کے اندر مسلم لیگ حزب اقتدار کو صرف 10 نشستیں حاصل ہوگئیں جبکہ مقابلہ 309 نشستوں پر تھی۔ یونائٹڈ فرنٹ (جگتوفرنٹ)کی حکومت قائم ہوگئی اور4 اکتوبر 1954ء کو برخاست کی گئی۔
پاکستان بننے کے بعد تنخواہ داروں میں سے غالب گروہوں نے جو کہ پنجابیوں اور کچھ عرصہ کیلئے اردوبو لنے والے مہاجروں پہ مبنی تھے اور جنہیں علاقا ئی اورنسلی تحریکوں کے جنم لینے کا اندیشہ تھا۔اسلام کا نعرہ بلندکیا۔غالب پنجابی طبقے نے محض سیاسی طورپر بنگال، سند ھ، سرحد اور بلوچستان میں جنم لینے والے علاقائی اور لسانی عصبیتوں کا مدا واکیا جاسکے۔
پاکستان میں پنجابی طبقہ اعلیٰ نے مسلم قوم کی وحدت اور یکتا کابڑے جو ش وخروش سے جھنڈا بلند کیا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی بھی شخص کیلئے اپنے آپ کو سندھی،پٹھان اوربلوچ کہلوانا جائز نہیں کیونکہ وہ سب مسلمان ہیں۔ اسلام برابری اور بھائی چارے کا مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں میں کسی قسم کی تقسیم کو تسلیم نہیں کرتا۔ جب پاکستان بن گیا اور اسلامی نظر یے کو علاقائی ونسلی تحریکوں کو کسی بھی قسم کے جواز سے محروم کردینے کی غرض سے رائج کیاگیا۔
ضیا الحق مروحق کو اسلاما ئزیشن کی پالیسی کے اندر اقتدار پر قائم رہنے کوجوا ز فراہم کرنے کا آئیڈیا ہاتھ لگا۔ چنانچہ کوئٹہ میں ایک تقر یر کے دوران اس نے اعلان کیا کہ اسے الہام ہواہے اور اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اسے یہ فرض سونپاہے کہ پاکستان میں اسلامی معاشرہ اور معیشت قائم کروں جوکہ پچھلی حکومتیں نہ کرسکیں۔اس نے یہ دلیل دی تھی کے انتخابات کا وعدہ تو ایک فانی انسان کی طرف سے کیاگیاتھا جواللہ کے حکم کے سامنے بے معنی ہوگیا ہے اور اسے وہی کچھ کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر فرض کیاہے“۔
حیدر آباد سازش کیس 1975ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے نیپ کی چوٹی کے لیڈروں کے خلاف غداری کامقدمہ چلایا۔ان پر الزام تھاکہ وہ نظریہ پاکستان کے مخالف ہیں جوقیام پاکستان کی بنیاد ہے۔(کسی بھی منصب کے لئے جوحلف ہے آج بھی اس میں نظریہ پاکستان سے وفاداری کی شرط شامل ہے) سازش کیس کی سماعت کے دوران جب فردجرم پڑھکر سنائی گئی تو میر غوث بخش بزنجونے جج صاحبان سے پوچھا کہ ذرا آپ تشریح کیجئے ! یہ نظر یہ پاکستان ہے کیا؟ جج مسکرائے اور کہا مجھے خود نہیں معلوم۔
درسی کتابوں کے مطابق نظریہ پاکستان سے مراد ہے مسلمانوں کے لئے ایک الگ مملکت کی ضرورت جہاں وہ اللہ کے اور اس کی رسول کی سنت کے مطابق اپنی زندگی بسر کرسکیں اسی کو نظریہ پاکستان کہہ کرپاکستان نے اپنی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبروں کے لئے حلف ناموں میں بھی داخل کردیا ہے جو بلوچ پارٹیاں انتخابات میں حصہ لے کر اسمبلیوں میں جاتے ہیں وہ دو قومی نظریہ کے اساس سے بنی اسی نظریہ پاکستان کی حلف اٹھاتے ہیں جس کامطلب یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کوایک الگ قوم مانتے ہیں نہ کہ پاکستان میں آباد چار بڑی قوموں کو یعنی بلوچ،پشتون، پنجابی اور سندھی۔
انتخابات میں حصہ لینے والے بلوچ پارٹیاں یہ دعویٰ کیسے کرسکتے ہیں کہ وہ نیشنلسٹ ہیں؟وہ تو نظریہ پاکستان پر حلف لینے کے بعد نام نہاد مسلم نیشنلزم یا پاکستانی نیشنلزم کے حامی بن جاتے ہیں جس کے اندر زبان، جغرافیہ، تاریخ اور ثقافت کی بنیاد پر قائم نیشنلزم کو رد کیا گیا ہے اس لئے تو شہید غلام محمد بلوچ نے پاکستانی پارلیمانی سیاست کو خیرباد کہاکیونکہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں نظریہ پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھانے کو وہ نیشنلزم کی توہین خیال کرتے تھے اس لئے پاکستانی پارلیمنٹ میں موجود بلوچ جماعتوں کو نیشنلسٹ نہیں کہا جاسکتا بلکہ قابض کی پارلیمان میں بیٹھنے والے کانگریسی بلوچ خیال کیاجائے جن سے انقلاب اور آزادی کی توقع رکھنا اپنی عمر اور نسلوں کا ضیاع ہے بلوچ کو نیشنلزم کی بنیاد پر اپنا وطن چاہئے آزاد بلوچستان جس کی سرحدوں کی نشاندہی میر نصیر خان نوری نے یہ دی ہے جہاں جہاں بلوچ اکثریت میں ہوں وہاں تک ہماری سرحدیں ہیں۔