پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر میں جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کی جانب سے ” بنگلہ دیش تحریک، وجوہات، حاصلات، مستقبل ” کے موضوع پر ہفتہ وار اسٹڈی سرکل 05 اگست تا 11 اگست 2024اس ہفتے باغ، ہجیرہ، گاؤں دھوندار میں منعقد ہوئے ۔
ہفتہ وار اسٹڈی سرکل میں مقررین نے کہا کہ بنگلہ دیش میں طلبہ اور محنت کش عوام کی تحریک کی گہرائیوں میں وہ عوامی نفرتوں کا لاوا ہے جو سماج میں پک رہا تھا، اور عام لوگوں کی تکلیفوں ، کرب اور مسائل کی بنیاد پر پروان چڑھنے والے نفرتوں بھرے اس لاوے کے پیچھے کوئی ایک وجہ بنیادی ضرور ہو سکتی ہے لیکن اس کے پیچھے مختلف وجوہات ہیں ، کسی ایک اسٹڈی سرکل یا کسی ایک سیشن میں ان تمام وجوہات کو تفصیلی زیر بحث لانا مشکل ہے تاہم ان وجوہات کا سر سری جائزہ لیتے ہوئے انھیں زیر بحث لانے کے لیے عوامی پرتوں اور باہیں بازو کی قوتوں کے سامنے رکھا جا سکتا ہے، اور یہ بھی ضروری نہیں کہ جن وجوہات اور تحریکی پس منظر کو ہم بطور جائزہ بحث کیلیے پیش کریں گے وہی حتمی ہوں بلکہ ایک سیر حاصل بحث کے بعد ہی ان وجوہات کی گہرائی تک پہنچا جا سکتا ہے۔
01۔ بنگلہ دیش میں طلبہ تحریک کا پھٹ پڑھنے کے پیچھے ایک بنیادی وجہ گزشتہ کئی دھائیوں سے بنگلہ دیش کے اندر نام نہاد سرمایہ دارانہ جمہوریت کو بتدریج ختم کرتے ہوئے یک پارٹی آمریت کو قائم کر دینا اور اس ون پارٹی آمریت کو قائم اور جاری رکھنے کے لیے ریاستی مشینری کا جائز اور ناجائز جبری استعمال کرنا ہے، عوامی لیگ نے شیخ حسینہ واجد کی قیادت میں گزشتہ 20 سالہ دور اقتدار میں دوسری کسی پارٹی اور فرد کو انتخابات میں جاندار حصہ لینے کے لیے نہیں چھوڑا جو کہ سویلین آمریت کی بدترین مثال ہے ۔ اس غیر جمہوری عمل و کردار کے خلاف عام لوگوں میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نفرتیں بڑھتی گئی جو جولائی 2024 میں مجتمع ہونا شروع ہوئیں۔
2۔بنگلہ دیش میں انسانی محنت کی سستے داموں فروخت یعنی بیرونی اور مقامی سرمایہ دار کو بہت سستی لیبر کی فراہمی جس کی وجہ سے عام لوگوں کی زندگیاں مشکلات کا شکار ہوہیں 8 سے 12 گھنٹے تک کام کرنے کے باوجود اگر لوگ کے لیے کیچن چلانا، تعلیم حاصل کرنا اور علاج تک کروانا مشکل ہو تو ایسے نظام کے خلاف لوگوں میں نفرتیں جنم لیتی ہیں عوامی تحریک کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی کافرماں تھی، کیونکہ بنگلہ دیش کی معشیت گراوتھ ضرور کر رہی تھی لیکن معشیت کی اس بہتری کی طرف گامزن پوزیشنوں کا جائزہ لیا جائے تو سرمایہ داروں کی معشیت گراوتھ کر رہی تھی اور عام لوگوں کی معشیت تنزلی کا شکار تھی، عام لوگوں کی زندگیاں دکھوں اور تکلیفوں بھری ہیں ۔
3۔ کوٹہ سسٹم کے تحت نسل در نسل ان لوگوں کی نسلوں کو موازنہ جس سے میرٹ کی پامالی کا مسلہ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ گہرا ہوتا جا رہا تھا، کوٹہ سسٹم کی وجہ سے نوجوانوں کی صلاحیتوں کا ہر میدان میں قتل ہو رہا تھا، جس کیخلاف نوجوان طلبہ میں بہت نفرت تھی اس کے ساتھ ساتھ عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم کی تعلیمی اداروں میں غنڈہ گردی اور منشیات فروشی جس کی پشت پر حکومت تھی نے بھی طلبہ میں اس نظام حکومت کے خلاف نفرتوں کو مجتمع کیا۔
4۔ شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے 1971 کے غداروں کو چن چن کر ان پر مقدمات قائم کیے اور انھیں پھانسیاں دلوائی ، ان میں اکثریت کا تعلق مذہبی گروہوں اور تنظیموں سے تھا، اس سے انکار ممکن نہیں کہ مذہبی قوتوں نے بھی شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف پروپگینڈا جاری رکھا جس سے مذہبی جذبات رکھنے والے لوگوں کو حکومت کے خلاف کیا۔
5۔برما پر فوجی ظلم و جبر سے متاثر ہونے والے رنگولی مسلمانوں کو بنگلہ دیش میں پناہ دی گئی ، جن کے لیے پناہ گزین کیمپ قائم کیے گئے ، وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ان کیمپوں کی صورتحال ناگفتہ بہ ہوتی گئی جس سے بنگلہ دیش میں بیماریاں بھی پھیلنا شروع ہوئیں اور معشیت پر بھی اس کے برئے اثرات مرتب ہوئے ، یہ صورتحال بھی لوگوں کی حکومت کے خلاف نفرتوں میں اضافے کا موجب بنی ۔
6۔بنگلہ دیش میں سستی لیبر کے باوجود بیروزگاری میں دن بدن اضافہ ہو رہا تھا، ہزاروں بنگالی روزگار کے لیے پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، بڑھتی ہوئی بیروزگاری نے نوجوانوں میں نفرت کو جنم دیا چونکہ نوجوان اپنی ریاست میں باعزت روزگار کی فراہمی چاہتے ہیں ۔
یہ وہ چھوٹی بڑی وجوہات ہیں جن کے اثرات عہد با عہد بنگلہ دیش کے سماج ، عام لوگوں اور نوجوان طلبہ پر پڑھ رہے تھے، ان مسائل کو لیکر آواز بلند کرنے کا حق اور اختیار حکومت نے لوگوں سے چھینا ہوا تھا، لوگ خوف زدہ تھے، مایوس تھے۔ لیکن ظلم،جبر،استحصال کے خلاف لوگوں کو بولنے سے بہت دیر تک روکا نہیں جا سکتا، اس خاموشی کی تاہوں میں ایک لاوا پک رہا تھا جس کا منظم اظہار جولائی 2011 کی طلبہ تحریک سے سامنے آیا ،طلبہ تحریک جو عوامی تحریک بن گئی کی بنیاد کو اگر ہم کل ملا کر دیکھیں تو بنگلہ دیش میں معاشی ناہمواری ہے، اور اس معاشی نا ہمواری کے پیچھے وہ ساری وجوہات کافرماں ہیں جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے ۔
حاصلات اور مستقبل
کسی بھی تحریک کی حاصلات کے سوال کو جب زیر بحث لایا جاتا ہے تو سب سے بنیادی بات اس تحریک میں عوام کی شمولیت ہوتی ہے، پھر چارٹر آف ڈیمانڈ اور چارٹر آف ڈیمانڈ پر کامیابی یا ناکامی،بنگلہ دیش کی موجودہ تحریک میں طلبہ اور عوام کی شرکت اتنے بڑے پیمانے پر تھی کہ ایسی عوامی تحریک اگر چہ حاصلات کے اعتبار سے بہت جزوی کامیابی ہی حاصل کرئے لیکن یہ طہ ہے کہ اس تحریک کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہوتی ہے کہ عوام سے مایوسی کو دور کرتی ہے، جمود کو توڑتی ہے، عوام کو اپنی منظم طاقت پر بھروسہ دلاتی ہے کہ اجتماعی جدوجہد سے عوام نجات کی سمت پیش رفت کر سکتے ہیں، اور بنگلہ دیش کی موجودہ تحریک نے بھی عوام میں عوامی طاقت پر بھروسے کو فروغ دیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس پورے ریجن میں گزشتہ لمبے عرصے سے طلبہ میں کوئی منظم تحریک نہیں ابھری بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ سماج کی سب سے باشعور پرت ہونے کے باوجود طلبہ کا جو کردار بنتا تھا اسے ادا کرنے سے آری تھے، موجودہ تحریک اس پورے ریجن کے طلبہ میں ایک جاندار حرکت کا باعث ثابت ہو گی اور مستقبل قریب میں دیگر سماجوں میں طلبہ ضرور منظم آوز بلند کریں گے۔
دوسرا بنگلہ دیش کی موجودہ تحریک کا بڑا مطالبہ تحریک کے آغاز پر کوٹہ سسٹم کا خاتمہ تھا لیکن جب ریاست نے طلبہ قیادت پر جبر کیا اور سینکڑوں طلبہ کو جن میں طلبہ قیادت بھی شامل تھی قتل کیا تو تحریکی مطالبہ وزیراعظم کے استعفی کا مطالبہ بن کر سامنے آیا۔ اس شدید مطالبے کے سامنے بے بس ہو کر وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو استعفی دینا پڑا، اور بعد ازاں حکومت کو تحلیل کرنا پڑا اور عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اب عبوری حکومت نے نئے انتخابات کروانے ہیں، یوں تحریکی حاصلات میں ون پارٹی رولنگ کا خاتمہ ہوا ہے، مختلف شعبہ جات سے عبوری حکومت میں نمائندے شامل ہونے ہیں۔
انقلابی پارٹی کی غیر موجودگی میں سماج میں اٹھنے والی تحریکوں کے نتائج ایسے ہی ہوتے ہیں کہ بہتری یا ابتری کا سوال مستقبل سے جڑ جاتا ہے اور یہی بنگلہ دیش کے سماج میں ہوا انقلابی پارٹی نہ ہونے کی وجہ سے شیخ حسینہ واجد کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی داخلہ طور پر مختلف گروہوں کے مفادات اور پھر عالمی سطح پر سامراجی رستوں کے مفادات اور پڑوسی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے مفادات کا ٹکراؤ مستقبل میں بنگلہ دیش کے سماج کو رجعت پسندی اور بنیاد پرستی میں دھکیل دئے گا یا پھر بنگلہ دیش کے محنت کش عوام کے حق میں سماج جمہوری عمل کی طرف پیش رفت کر سکے گا؟
بنگلہ دیش کی تحریک ون پارٹی اقتدار پر براجمانی کے سوال کو تو حل کر سکی ہے لیکن اقتدار کی منتقلی کے سوال کو حل نہیں کر سکی ہے، چونکہ جب تک اقتدار عوام کو منتقل نہیں ہوتا عوامی مسائل کا حل ممکن نہیں ہے، اس تحریک کے تناظر میں اقتدار میں آنے والی قوت جو بھی ہو گی سرمایہ دارانہ پارٹی سے ہی ہو گی، اقتدار کی ایک طبقے سے دوسرے طبقے کو منتقلی کا سوال بہت اہم ہے اور یہ تب حل ہوتا ہے کہ تحریک کی قیادت انقلابی پارٹی کر رہی ہو۔
بنگلہ دیش کی تحریک سے سیکھنے کی ضرورت ہے کہ ظلم جبر استحصال اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تحریکوں کا ابھرنا نا گزیر ہے لیکن ان تحریکوں کی قیادت کے لیے ان تحریکوں کو واضح سمتیں دینے کے لیے انقلابی پارٹی کا ہونا اشد ضروری ہے ورنہ ایسی تحریکوں کے دوران اور تحریکوں کے بعد رجعت پسند قوتیں جو پہلے ہی محنت کش عوام کے استحصال میں حصہ دار ہوتی ہیں اقتدار پر براجمان ہو جاتی ہیں اور پسماندگی کی نئی اور شدید شکلیں سامنے آتی ہیں جو سماج پر اپنے پیجے گاڑ دیتی ہیں۔
بنگلہ دیش کی تحریک برصغیر سمیت پوری دنیا کی انقلابی قوتوں اور محنت کش عوام کے لیے ایک تاریخی سبق چھوڑتی ہے کہ موضوعی عنصر یعنی انقلابی پارٹی کی تعمیر کے بغیر تحریکوں سے اقتدار کی محنت کش طبقے کو منتقلی جیسی بنیادی مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ اور جب تک اقتدار محنت کش طبقے کو منتقل نہ ہو تو کوئی بھی تحریک چھوٹی یا بڑی حاصلات حاصل کرنے کے باوجود مستقبل کے لیے سوالیہ نشان بن کر رہتی ہے ۔