دو فروری کی سرد سہ پہر کو امان بیساکھی کے سہارے کھڑے ہو کر اپنی دکان بند کر رہا تھا کہ اُس کے موبائل کی گھنٹی بجی، فون ریسیو کیا تو دوسری طرف اُسکی بیٹی مائرہ گھبرائ ہوئ آواز میں بولی کہ بابا بجلی کے محکمے والے آئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ بل کی عدم ادائیگی کی وجہ سے وہ بجلی کا کنکشن کاٹ رہے ہیں۔ امان نے اپنی بیٹی کو تسلی دی کہ گھبراؤ نہیں میں گھر پہنچ رہا ہوں۔ فون بند کر کے اُس نے دکان کو تالا لگایا اور اپنی بیساکھی کے سہارے گھر کی طرف چلنے لگا۔
پینتیس سالہ امان راجوری سے ہجرت کر کے آیا تھا اور اب پونچھ کا رہائشی اور ایک ٹانگ سے معذور نوجوان تھا۔ امان اپنے چھوٹے بھائ زبیر، اپنی بیٹی مائرہ اور بیوی زینب کے ساتھ اس گھر میں رہتا تھا۔زبیر ایک سرکاری دفتر میں کلرک کی نوکری کرتا تھا۔ امان کے دو بھائ اور دو بہنیں ابھی تک راجوری میں ہی مقیم تھے۔ جذبہ آزادی سے سرشار امان 1989 میں چلنے والی ہندوستان مخالف بندوق بردار تحریک کا حصہ بنا اور جہادی تنظیم میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے ٹریننگ حاصل کی اور چار سال تک ہندوستانی فوج کے خلاف برسرِ پیکار رہا۔ اسی دوران ایک بارودی سرنگ پھٹنے سے ایک ٹانگ سے محروم ہو گیا اور اب پونچھ کے اس مہاجر کیمپ میں اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے کریانہ کی دوکان چلا رہا تھا۔
سن 2000 کے بعد عالمی حالات نے پانسہ پلٹا تو پاکستانی حکومت نے تمام جہادی تنظیموں پر پابندی عائد کرتے ہوئے اُنہیں کالعدم قرار دے دیا تھا یعنی کل کے مقدس مجاہد آج دہشتگرد بن چُکے تھے۔ تحریک کے باقی لوگ بھی اسی طرح دوسرے کام کاج میں مصروف ہو چُکے تھے۔
گھر جاتے ہوئے امان کے ذہن میں خیالات کی ایک آندھی چل رہی تھی۔ گلی کے نُکر پر کھیلتے ہوئے بچوں کو دیکھ کر وہ کچھ دیر کو رُکا اور اپنا بچپن یاد کرنے لگا۔ امان سوچ رہا تھا کہ راجوری میں اپنے گھر بار چھوڑ کر وہ اسلام کی محبت میں یہ سوچتے ہوئے ریاست کے اس حصے میں آیا تھا کہ یہاں اسلام کا نظام رائج ہے اور وہ اپنی زندگی اسلامی نظام میں رہتے ہوئے نہ صرف گزارے گا بلکہ ہندوستان کے زیر قبضہ علاقے کو بھی آزاد کروائے گا۔ مگر یہاں کے تلخ حقائق سے ٹکرا کر وہ خود کو بوڑھا محسوس کرنے لگا تھا۔ معذوری کی وجہ سے وہ ویسے ہی کمزوری محسوس کر رہا تھا مگر معاشی اور سیاسی حالات کی ابتری کی وجہ سے وہ نوجوان عمر میں ہی بہت بُوڑھا دکھائ دینے لگا تھا۔ اسی سوچ میں ڈوبا امان اپنے گھر میں داخل ہوا۔
گھر پہنچتے ہی مائرہ نے اُسے بتایا کہ بجلی کے محکمے والے کنیکشن کاٹ کر جا چُکے ہیں۔ مائرہ نے امان کو بتایا کہ مہمان خانے میں امام دہی مولانا صادق اور زبیر انکل بیٹھے ہوئے ہیں اور مولانا صادق کافی دیر سے انتظار کر رہے ہیں۔
امان مہمان خانے کی طرف بڑھا اور مولانا صادق اور زبیر سے مصافحہ کرتے ہوئے کرسی پر جا بیٹھا۔ مولانا صادق اور زبیر سرکاری سطح پر 5 فروری کو منائ جانے والی يومِ يکجہتیِ کشمیر کے حوالے سے گفتگو کر رہے تھے۔ زبیر اُنہیں بتا رہا تھا کہ آج ڈپٹی کمشنر کی طرف سے حکم نامہ جاری کیا گیا جس کے مطابق ہر سال کی طرح اس سال بھی 5 فروری کو تمام سرکاری ملازمین احتجاج میں شریک ہو کر بھارت کو پیغام دینگے کہ اُسے ریاست جموں کشمیر کا اپنے زیر قبضہ علاقہ آزاد کرنا ہی پڑے گا۔
یہاں آزادکشمیر میں اپنی دوکانیں بند کر کے اپنے ہی بازاروں میں احتجاج کرنے سے بھارت کو کیا فرق پڑے گا ؟؟ اپنے ہی کاروبار اور اپنی ہی سڑکیں بند کر کے پچھلے چالیس سال میں کیا حاصل ہوا ؟؟ امان نے غصے سے زبیر کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا۔ مجھے یہ بتاؤ کہ يکجہتی کا مطلب کیا ہوتا ہے ؟؟
زبیر کچھ دیر خاموش رہا پھر شرمساری سے بولا کہ آج تک یہ بات اُسکے ذہن میں ہی نہیں آئ کہ يکجہتی کیا ہوتی ہے۔ اُس نے مولانا صادق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ مولانا صاحب بہتر بتا سکتے ہیں۔ مولانا صادق اپنا گلہ صاف کرتے ہوئے کہنے لگے کہ يکجہتی کا مطلب ایک مشترک مقصد کے لیے حمایت اور اتحاد کے احساس کا نام ہے۔ تو امان کہنے لگا کہ ہم کون ہیں ؟ مولانا صادق بولے کہ ہم ریاست کے شہری ہیں یعنی عُرف عام میں ہم کشمیری ہیں۔ امان نے پوچھا کہ ہمارا مسئلہ کیا ہے؟ مولانا کہنے لگے کہ ہمارا مسئلہ ہندوستان سے آزادی ہے۔ امان نے سر کُجھاتے ہوئے دوسرا سوال داغا کہ آزادی کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ تو مولانا کہنے لگے کہ ظاہر ہے آزادی کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔
امان کہنے لگا کہ آزادی کی جدوجہد کرنے کی بجائے ہم کیا کر رہے ہیں ؟ اس سوال پر مولانا صادق خاموش رہے تو امان اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا کہ يکجہتی کا مطلب دو گروہوں یا قوموں کے درمیان مشترک مقصد کے لیے اتحاد اور حمایت کے احساس کا نام ہے تو اس یکجہتی میں پہلی قوم ریاست جموں کشمیر کی ہے یعنی کشمیری ہے اور دوسری قوم پاکستانی ہے۔ امان نے اپنی آواز میں سختی لاتے ہوئے کہا کہ يقیناً ہمیں یکجہتی کی اشد ضرورت ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ پاکستان ہی نہیں بلکہ دُنیا بھر کی اقوام ہم سے يکجہتی کا اظہار کریں چونکہ ہم ایک مظلوم قوم ہیں اور ہمیں بھی آزادی سے جینے کا حق ہے۔ ہم سے پاکستان ، ایران، سعودیہ، روس ، امریکہ جو بھی یکجہتی کرے ہمارے سر آنکھوں پر مگر ہم اپنے ساتھ خود ہی یکجہتی کیسے کر سکتے ہیں ؟؟؟
کمرے میں سناٹا چھا گیا۔ مولانا صادق اور زبیر جیسے کسی گہری سوچ میں کھو گئے۔ امان پھر گویا ہوا کہ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ یہ مانتے ہیں کہ ہندوستان نے ہماری ریاست پر قبضہ کیا ہوا ہے اور قبضے کے خاتمے کے لیے آزادی کی جدوجہد کرنا ضروری ہے۔ یہاں کونسی آزادی کی جدوجہد ہو رہی ہے؟ ہم کیا جدوجہد کر رہے ہیں ؟ اولاً تو ہم آزادی کی کوئ جدوجہد کر ہی نہیں رہے کہ اس پہ کوئ بات کی جائے چونکہ جو عسکری جدوجہد جاری تھی اُسے بھی حکومت نے کالعدم قرار دے کر جدوجہد کرنے والی تمام جماعتیں دہشتگرد قرار دے دیں یعنی ریاست پاکستان نے پہلے ہمیں بتایا کہ ہم آپ کو بندوق دیتے ہیں آپ اپنی آزادی کی جدوجہد کرو پھر خود ہی اُس آزادی کی جدوجہد کو کالعدم قرار دے کر پابندی لگا دی تو ہم اپنے ساتھ کونسی یکجہتی کر رہے ہیں ؟
مولانا صادق داڑھی پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے متفکر انداز میں بولنے لگے کہ اسطرح کے سوالات آج تک ہم نے سوچے ہی نہیں اور نہ ہی کسی سے پہلے سُنے۔ مولانا نے امان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں بھی آپ کو 5 فروری کے پروگرام کی دعوت دینے آیا تھا کہ ہم اکٹھے احتجاج میں چلیں گے۔
مولانا صاحب یہ یکجہتی کے نام پر فرسودگی ہے ! امان نے بھُن کر کہا۔ آپ جانتے ہیں کہ میں چار سال تک ہندوستانی فوج سے نبردآزما رہا ، میرا آدھا خاندان ابھی تک راجوری میں ہے۔ میں یہاں پر اسلامی ںطام کا سوچ کے آیا تھا اور مجھے یہ یقین تھا کہ پاکستان ہمارا بڑا بھائ ہے وہ ہماری آزادی میں ہماری مدد کرے گا۔ مگر نہ تو یہاں اسلام کا نظام ہے اور نہ ہی پاکستانی حکومت کا رویہ بڑے بھائ والا ہے۔ پاکستانی حکومت نے ہماری آزادی کا مطلب پاکستان سے الحاق بتایا اور ریاستی آزادی کو جیسے کہ ہماری ریاست پاکستان اور ہندوستان کی پیدائش سے پہلے تھی کو بھارتی ایجنڈا قرار دے کر ریاست میں چلنے والی خود مختاری اور خود اختیاری کی تحریک کو دیوار کے ساتھ لگاتے ہوئے گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کے لوگوں میں بھی دیواریں کھڑی کر دیں۔ اب تو حالات یہ ہیں کہ اس خطے میں اپنے حقوق کی بات کرنے کو بھی کسی دوسرے مُلک کا ایجنڈا سمجھا جا رہا ہے۔
امان کہتا گیا کہ آج تک آپ نے ایسا دیکھا کہ ایک مریض خود اپنی ہی عیادت کرتا رہا ہو؟ مولانا نے نفی میں سر ہلایا تو امان اپنی بات جاری رکھتے کہنے لگا کہ پھر ہم آزادی کی جدوجہد کی بجائے اپنی ہی ذات سے یکجہتی کیسے کر سکتے ہیں ؟؟ پچھلے 24 سالوں سے ایسی یکجہتیاں منا کر کیا اکھاڑ لیا ہم نے ہندوستان کا ؟؟
مولانا! مجھے یہ بتائیے کہ اس خطے میں لوگوں کو کیا حقوق حاصل ہیں جو سینہ چوڑا کر کے ہندوستانی مقبوضہ علاقے کے لوگوں کو دعوت دے رہے ہیں کہ وہ بھی ہمارے ساتھ مل جائیں ؟؟ ہمارے پاس تو یہاں زندگی گزارنے کی بنیادی ضروری سہولتیں تک میسر نہیں ہیں۔ ہمارے ہسپتال صرف مریضوں کو پاکستان ریفر کرنے کے سینٹرز ہیں، ہر ادارہ بانجھ اور کرپٹ ہے۔ معیشت نام کی کوئ چیز نہیں محض دکانداری ہے اور اس مہنگائ میں دکان داری سے گھر کے اخراجات پورے نہیں ہو رہے۔ امان نے مولانا صادق کو بتایا کہ بجلی آزادکشمیر سے فری پیدا ہوتی ہے اور سیدھا پاکستان جاتی ہے پھر ہم پاکستان سے وہی بجلی دوبارہ مہنگے داموں خریدتے ہیں ۔ کچھ ماہ سے بجلی کا بل نہ جمع کروا سکنے کی وجہ سے ابھی کچھ دیر قبل محکمے والے کنکشن کاٹ کر چلے گئے۔ حکومت یہاں معیشت کا سوچنے کی بجائے عیاشیوں اور پاکستانی امراء کی قدم بوسیوں میں لگی ہے اور ہم مجبور ہو کر اپنی اولادوں کو بیرون ممالک زندگیاں کھپانے کے مواقع ملنے کی دعائیں کرتے ہیں۔
امان بولتا چلا گیا کہ اسلامی نظام کا تصور لیے پاکستان کو دوسرا کعبہ سمجھتے سمجھتے حقائق یہ ہیں کہ پاکستان بھر میں ایک لیٹر دودھ خالص ملنا ممکن نہیں رہا تو آپ کونسی یکجہتی کی بات کر رہے ہیں؟ ہم ریاستی شہری تو اپنی ہی ذات سے یکجہتی کرنے جیسے مکروہ کام سے رہے بلکہ اب تو پاکستان بھی ہمارے ساتھ یکجہتی منانے کے سارے اخلاقی، مذہبی و قانونی جواز کھو چُکا ہے۔
امان زبیر سے پوچھنے لگا کہ تحریک آزادی کے لیے جانیں ، مال و عزت قربان کرنیوالے لاکھوں لوگوں کا کیا ہوا ؟؟ ہندوستان کی جانب سے لائن آف کنٹرول پہ باڑ کیسے لگی؟ ہندوستان اپنے مقبوضہ علاقوں کو ضم کر گیا تو پاکستان نے کیا کیا ؟؟ یہ تحریک آزادی کشمیر بنا کسی نتیجہ کے کس نے ختم کی ؟ کس نے تحریکی جماعتیں کالعدم قرار دیں ؟ یہاں بسنے والے لوگوں کا معیار زندگی کیا ہے؟ آٹے کے لیے لائنوں میں لگنے والے لوگوں کو کونسی سہولیات ہیں جو لاکھوں کروڑوں کا زعفران پیدا کرنے والے سری نگر یا ان گنت فیکٹریوں کے علاقے جموں کو اپنے ساتھ ملنے کی سینہ پیٹ پیٹ کر دعوت دی جا رہی ہے؟؟
امان کہتا چلا گیا کہ یہاں اس خطے میں انسانوں کو سات دہائیوں سے بھیڑ بکریاں سمجھا جا رہا ہے اسی وجہ سے نہ کوئ ائیرپورٹ ہے نہ ریل کا تصور، نہ بجلی نہ پانی نہ صحت نہ آٹا نہ معیشت اور ہماری ایسی مت ماری جا چُکی ہے کہ ہم بجائے ان بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کے تقاضے کے ہم اپنی ہی ذات کے ساتھ یکجہتیوں کا گھناؤنا کھیل کھیل رہے ہیں۔
امان کچھ دیر کو خاموش ہوا تو مولانا صادق اور زبیر یک زبان ہو کر کہنے لگے واللہ ! آج سے پہلے اس طرح کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ ایسے سوالات آج تک ذہن کے قریب سے بھی نہیں گزرے۔
امان کہنے لگا کہ اللہ تعالی نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ہے تو ہمیں اپنے مرتبے کا خیال رکھنا چاہیے۔ ہمیں اولاً تو اپنی آزادی کی جدوجہد کرنی چاہیے یا کم از کم اس خطے کو ایک مثالی خطہ بنا کر دکھانا چاہیے تاکہ ہم کم از کم اتنا اخلاقی جواز رکھ سکیں کہ ریاست کے باقی حصوں کے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دے سکیں۔ اگر ہم یہاں جانوروں کی زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں اور اپنی ہی ذات سے یکجہتیاں منا کر اپنی جہالت کا ثبوت دے رہے ہیں تو ریاست کے باقی حصوں کے لوگ ہمیں احمق اور دیوانہ سمجھے ہوئے صرف ہماری حالت پر ہنسیں گے اور ہم پر ترس کھائیں گے۔ مولانا صادق اور زبیر کافی دیر تک شرمساری سے ایک دوسرے کی جانب دیکھتے رہے اور قریب مسجد سے مغرب کی آذان کی صدا بلند ہوئی۔