،ڈبلیوایچ او عالمی ادارہ صحت کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس سی کے سب سے زیادہ مریض پاکستان میں ہیں جن کی تعداد 88 لاکھ ہے۔ ہیپاٹائٹس بی کے 38 لاکھ متاثرین کی شمولیت کے ساتھ یہ تعداد ایک کروڑ 26 لاکھ بنتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہیپاٹائٹس کی مختلف اقسام میں سے سی‘‘ اور بی‘‘ سب سے زیادہ خطرناک ہیں اور پاکستان ان پانچ ممالک میں شامل ہے جہاں یہ دونوں وائرس سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔
تاہم ایسے مستند اعداد و شمار دستیاب نہیں جن سے واضح ہو کہ ہر سال کتنے پاکستانی ہیپاٹائٹس کی مختلف اقسام کے سبب موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مختلف اندازے اور غیر سرکاری رپورٹس یہ تعداد لاکھوں میں بتاتے ہیں۔
ضیاء الدین یونیورسٹی ہسپتال کراچی میں gastroenterology شعبہ کے صدر پروفیسر ڈاکٹر ضیغم عباس کے مطابق پاکستان میں تقریباً ’’سالانہ ایک لاکھ بیس ہزار افراد ہیپٹائٹس سے ہلاک ہوتے ہیں۔”
نیشنل لائبریری آف میڈیسن میں ’’ہیپاٹائٹس از اسٹل اے میجر ہیلتھ کنسرن: شارٹ کمیونیکیشن‘‘ کے نام سے شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ کے مطابق ”2015 ء سے 2019 ء کے دوران پاکستان میں ہیپٹائٹس سی اور ہیپٹائٹس بی کے سبب ہونے والی اموات میں بالترتیب پانچ اور آٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان چار سالوں کے دوران محض پونے تین لاکھ کے قریب مریضوں کی اسکریننگ کی گئی جن میں سے صرف ایک لاکھ تریسٹھ ہزار نے علاج کے لیے مختلف ہسپتالوں سے رجوع کیا۔”
اس تحقیق کے مطابق ڈبلیو ایچ او کا کم از کم ہدف ہے کہ ہر ملک میں نئے پیدا ہونے والے 90 فیصد بچوں کو ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین ضرور لگائی جائے۔ لیکن ”پاکستان میں 2020 ء کے دوران یہ شرح محض 77 فیصد رہی۔”
ٹراپیکل میڈیسن اینڈ ہیلتھ میں نیشنل رجسٹری اِن پاکستان: نیڈ فار ہیپاٹائٹس کنٹرول‘‘ کے نام سے شائع ہونے والی حالیہ تحقیق کے مطابق 2030 ء تک ہیپاٹائٹس کے خاتمے کے لیے پاکستان کو ”سالانہ ایک کروڑ اٹھاسی لاکھ ٹیسٹ کرنے ہوں گے اور گیارہ لاکھ افراد کا علاج کرنا ہو گا۔”
پاکستان ہیلتھ ریسرچ کونسل کی رسک فیکٹرز آف ہیپاٹائٹس سی اِن پاکستان‘‘ کے نام سے شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ کے مطابق انجیکشن اور بلڈ ہیپاٹائٹس سی پھیلانے کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ ”ماضی میں جو شخص سالانہ چار سے پانچ انجیکشن لگواتا رہا اس کے ہیپاٹائٹس سی میں مبتلا ہونے کے امکانات نو سے گیارہ فیصد زیادہ تھے۔” اس کے علاؤہ ”خون کا تبادلہ، سرجیکل آپریشن اور حجاموں سے شیو وغیرہ کے دوران کٹ لگنا عمومی وجوہات ہیں۔”
سرجیکل گلوبل ہیلتھ میں گذشتہ برس پاکستان اسٹرگلنگ ٹو ٹیم ہیپاٹائٹس: این آن گوئنگ تھریٹ‘‘ کے نام سے شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ کے مطابق ملک میں ہیپاٹائٹس پھیلانے میں درج ذیل عناصر بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ”خون کی منتقلی (15 فیصد)، ہاسپٹل ہسٹری (14 فیصد)، دانتوں کا علاج (13 فیصد)، انجیکشن یوز (12 فیصد) اور سرجیکل ہسٹری (9 فیصد)۔”
اس رپورٹ کے مطابق ”خون دینے والے افراد میں سے تقریباً نصف کا ہیپاٹائٹس ٹیسٹ کیے بغیر خون نکال کر دوسرے افراد کو لگا دیا جاتا ہے۔”
پاکستان کے حوالے سے ڈبلیو ایچ اوکی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے حکومت سے قومی سطح پر ہیپٹائٹس کے خلاف آگاہی اور خاتمے کی مہم چلانے کا مطالبہ کیا ہے