عورت کے بغیر انقلاب ادھورا ہے ….. اسام افتخار

 

آج کی یہ تحریر آزاد جموں و کشمیر کی رول ماڈل خواتین فریڈم فائٹر گرلز ماریہ خان، رابعہ ربی، زارا اعجاز، وحیدہ جموں کشمیری، سلمیٰ حمید، ادیبہ جمیل، ہدا عابد، کرن کنول، عروج امجد، عروصہ امجد، راشدہ یاسر، ہما خان کشمیری، اظفرا نصارا، مظافر خانصاحب اور کچھ دوسری خواتین کے نام جن کا نام نہیں لکھا گیا ہے۔

جموں و کشمیر کی یہ بیٹیاں ریاست آزاد جموں و کشمیر کی تمام خواتین کہ لیے رول ماڈل ہیں۔ان کا تعلق مختلف آزادی پسند جماعتوں سے ہے ،مختلف شعبوں سے ہے ،کچھ تعلیم کے شعبہ سے وابستہ ہیں کچھ وکیل ہیں کچھ سٹوڈنٹس ہیں لیکن ایک بات سیم ہے سب میں یہ ریاست کی خودمختاری کی بات کرتی ہیں ۔ بنیادی عوامی حقوق کی بات کرتی ہیں، عوامی ایکشن کمیٹی کی ہر کال پر لبیک کہا ان خواتین نے۔جب بھی ریاست پر خطرہ آیا اپنی ریاست کی بقا کہ لیے فرنٹ پر آگئیں ۔جو ریاست میں موجود نہیں بازریعہ سوشل میڈیا اپنا پیغام دیتی ہیں ،ریاست جموں و کشمیر کے لیے۔ ریاست میں ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف وہاں پروٹسٹ ریکاڈ کرواتی ہیں اپنا۔

ریاست جموں کشمیر کے کسی بھی کونے پر کوی بھی ظالم ہو گا تو جہاں ریاست کہ بیٹے آواز اٹھاتے ہیں وہیں یہ ریاست کی بیٹیاں بھی اپنی ذمہ داری فرض سمجھ کر اس ظلم پر اواز اٹھاتی ہیں ۔

ریاست کی ان حقیقی بیٹیوں کا شمار اپنے اپنے شہر میں گائوں میں اثروسوخ رکھنے والے لوگوں میں ہوتا ہے ،ان کی راے سب کے لئے قیمتی اور قابل قدر ہوتی ہیں۔غریب مظلوم طبقے کہ لوگ ان خواتین کو مسیحا مانتے ہیں،اپنا دکھ درد بیان کرتے ہیں ان کے ساتھ۔ اور یہ ہر دو صورت مظلوم کی مدد کو یقینی بناتی ہیں خواہ وہ مالی امداد کی صورت میں ہو ،کسی کو کوٹ کچہری کا مسئلہ ہو کسی کو تعلیمی مسئلہ ہو یا اور کسی بھی طرح کے مسائل سے دو چار ہو مظلوم طبقے کے اس کی آواز بنتی ہیں ۔

آج کل اکثریتی لڑکیاں سوشل میڈیا بھی یوز کرتی ہیں ٹک ٹاک بھی یوز کرتی ہیں کچھ اپنے نام سے سوشل ایکونٹ استعمال کرتی ہیں اور کچھ فرضی نام سے کچھ لڑکیوں نے تھوڑا چہرے کو چھپا کر ویڈیوز بھی اپلوڈ کی ہوتی ہیں میلوں کی ویڈیوز ،ٹرولنگ کی ویڈیوز اور مختلف کنٹنٹ پر ویڈیوز۔ہمارے خطے میں زیادہ تر لڑکیاں پڑھی لکھی ہیں، ہمارے ہاں لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کا تعلیمی تناسب بھی زیادہ ہے، ایم فل پی، ایچ ڈی ڈگری ہولڈر ہیں ہماری خواتین جو سوشل میڈیا ٹک ٹاک یوز کرتی ہیں اگر وہی خواتین فضول ٹک ٹاک ویڈیوز کے بجائے بنیادی حقوق پر بنیادی مسائل کے حل پر کالم لکھیں شاعری لکھیں ۔ تو میں سمجھتا ہوں لائک ،ویوز بھی زیادہ ہونگے اور عزت بھی ہزار گنا زیادہ ملے گی۔مجال ہے کسی شخص کی ریاست کی ان چند بیٹیوں کی طرف میلی آنکھ سے بھی دیکھ سکے ۔یہ دلیر ، نڈر بے خوف خواتین اس کی انکھیں نہ نوچ ڈالیں ۔تمام خواتین سے گزارش کروں گا ان ریاست کی ہیروز خواتین کو پڑھیں ،سنیں یہ ہماری بہنیں کیا کہہ رہی ہیں ان سے سوال پوچھیں اور ان سے سیکھیں یہ ریاست کی عظیم خواتین ہیں۔پوری ریاست کی عوام کی ہیروز ہیں ،ریاست کا ہر باشعور شخص ان کی عزت،قدر ، احترم کرتا ہے۔

ابتدای اسٹیج میں انہیں بھی شاید مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہو گا اور ابھی مختلف مسائل سے دوچار ہوں گی لیکن راہ حق پر قائم و دائم ہیں ۔اپنی ریاست کی ،ریاست کی عوام کی، بنیادی حقوق کی بات ہر صف اول میں کھڑے ہو کر کرتی ہیں،ہر ظلم پر ڈٹ جاتی ہیں ۔

میں ان تمام خواتین کو سرخ سلام پیش کرتا ہوں ۔خاص کر ان کے والدین کو بھائی کو جو شادی شدہ ہیں ان کے شوہر کو اور ان کی پوری فیملی کو سرخ سلام پیش کرتا ہوں۔ آپ کی بیٹیاں ریاست جموں و کشمیر کی شیرنیاں ہیں۔ والدین کو ایک بار پھر مبارک بعد پیش کرو ں گا، ہزاروں لوگوں نے اپنے بیٹے ریاست کو دیے ہیں ،آپ نے اپنی بیٹیاں ریاست کو دی ہیں، سرخ سلام آل کامریڈرز کو ۔

1947میں جب ریاست پر قبائلی یلغار ہوا تو نیشنل ذیلی گارڈ کی خواتین تلواریں لے کر باہر نکل آئیں، اس نعرے کے ساتھ ریاست بچائو حملہ آوروں سے ۔یہ ریاست کی مخافظ خواتین تھی، آج سے سو سال بعد نیشنل ذیلی گارڈ کی خواتین کے ساتھ زارا اعجاز، ماریہ خان ،رابعہ ربی، وحیدہ جموں کشمیری، سلمیٰ حمید، ادیبہ جمیل ہدہ عابد، کرن کنول، عروج امجد، عروسہ امجد، راشدہ راشدہ یاسر، ہما خان کشمیری، عفرا شبیر، صنم افسر خان، میرا خان اور دیگر کامریڈ کو یاد کیا جاے گا، رول ماڈل کے طور پر ۔

جینی مارکس کہ دور میں بھی ہزاروں امیر ،سرمایا دار ڈگری ہولڈر خواتین بھی ہوئی گی لیکن جینی مارکس کی انقلابی سوچ جہدو جہد کی وجہ سے جینی مارکس کا نام آج تک امر ہے۔ باقی اس دور کی کسی خاتون کو کوئی نہیں جانتا آج کوئی نام نہیں لیتا ۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے