ٹرمپ اور زیلنسکی میں ملاقات دوران تکرار پر یوکرین اور روس کے درمیان جنگی بندی معاہدہ نہیں ہوسکا

 

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرین کے صدر ولادمیر زیلنسکی کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات میں اس وقت بدمزگی ہو گئی جب یوکرینی صدر کی امریکی صدر اور نائب صدر سے معدنیات سے متعلق معاہدے پر بات چیت کے دوران تکرار ہوئی۔

دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے دوران سخت جملوں کے تبادلے کے بعد یوکرینی صدر زیلنسکی وائٹ ہاؤس سے روانہ ہو گئے اور وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ معدنیات سے متعلق معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے ہیں اور دونوں صدور کی طے شدہ مشترکہ پریس کانفرنس کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔

جمعے کو وائٹ ہاؤس میں میڈیا نمائندوں کے سامنے ہونے والی بات چیت میں اس وقت ماحول گرم ہوا جب امریکی صدر ٹرمپ نے یوکرینی صدر سے کہا کہ’روس کے ساتھ معاہدہ کریں ورنہ ہم پیچھے ہٹ جائیں گے۔‘

جس کے جواب میں یوکرین کے صدر نے کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ ’کوئی سمجھوتہ‘ نہیں ہونا چاہیے – لیکن ٹرمپ کا کہنا ہے کہ کئیو کو روس کے ساتھ امن معاہدے تک پہنچنے کے لیے رعایتیں دینا ہوں گی۔

ملاقات کے دوران صدر ٹرمپ نے صدر زیلنسکی سے کہا کہ آپ کا ملک جنگ نہیں جیت رہا، آپ ہماری وجہ سے اس جنگ سے نکل سکتے ہیں۔ اگر آپ کی فوج کے پاس ہمارا دیا ہوا اسلحہ اور عسکری سازوسامان نہیں ہوتا تو یہ جنگ دو ہفتوں میں ہی ختم ہو جاتی۔

اس ملاقات کے دوران ٹرمپ نے زیلنسکی سے سوال کیا کہ کیا آپ نے ایک بار بھی امریکہ کا شکریہ ادا کیا؟ آپ کو امریکہ کا شکر گزار ہونا چاہیے، آپ کے پاس آپشز نہیں ہیں، آپ کے لوگ مر رہے ہیں، آپ کو فوجیوں کی کمی کاسامنا ہے۔ ٹرمپ نے زیلنسکی سے کہا کہ آپ تیسری عالمی جنگ کا خطرہ مول لے رہے ہیں، آپ ’امریکہ‘ کی توہین کر رہے ہیں۔

اس موقع پر امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے زیلنسکی سے کہا کہ ’آپ کے الفاظ انتہائی غیر مناسب ہیں۔‘

اس پر زیلنسکی نے ان سے سوال پوچھا کہ کیا آپ نے ایک بار بھی یوکرین کا دورہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ہمیں کن مشکلات کا سامنا ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ یوکرین کو سکیورٹی کی ضمانت دینا امریکہ کی نہیں یورپ کی ذمہ داری ہے ، چاہتے ہیں امریکہ یوکرین کی مدد بند نہ کرے۔

امریکی صدر ٹرمپ اور یوکرینی صدر زیلنسکی کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات میں ایک غیر معمولی تکرار کے بعد نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان معدنیات سے متعلق معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے ہیں بلکہ زیلنسکی کے وائٹ ہاؤس سے چلے جانے پر دونوں صدور کی مشترکہ پریس کانفرنس بھی منسوخ ہو گئی ہے۔

اس ملاقات کا مقصد دونوں کے درمیان معدنیات کے معاہدے پر دستخط کرنے کے پیش نظر تھا جو آگے نہیں بڑھ سکا۔

مگر ان دونوں سربراہوں کے درمیان ایسی کیا گفتگو ہوئی جو تکرار تک جا پہنچی آئیے جانتے ہیں۔

تلخ جملوں کے تبادلے کے دوران دونوں رہنما ایک دوسرے کو بار بار اس انداز میں ٹوکہ جو وائٹ ہاؤس میں شاذ و نادر ہی دیکھا گیا ہے۔

ملاقات کے آغاز پر معاملات اس وقت تلخی کی طرف بڑھے جب صدر ٹرمپ کو یہ کہتے سنا گیا کہ ’یہ بہت اچھا ہو گا اگر وہ اور زیلنسکی روس اور یوکرین کی جنگ کا خاتمہ کر سکیں۔‘

جس پر صدر زیلنسکی نے کہا کہ مذاکرات کی میز پر روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ ’کوئی سمجھوتہ‘ نہیں ہونا چاہیے – لیکن ٹرمپ نے کہا کہ روس کے ساتھ امن معاہدے تک پہنچنے کے لیے کیئو کو رعایتیں دینا ہوں گی۔‘

اس پر صدر زیلنسکی نے ٹرمپ کو روس کے جنگی مظالم کی تصاویر دکھائیں اور کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ ہمارے ساتھ ہیں۔‘

صدر ٹرمپ نے یوکرینی صدر سے کہا کہ وہ روس کے ساتھ معاہدے کریں ورنہ امریکہ پیچھے ہٹ جائے گا۔

اس موقع پر ٹرمپ نے کہا کہ ’اگر آپ کو ابھی جنگ بندی کا موقع ملے تو میں آپ سے کہوں کا کہ فوراً اس پر آمادہ ہو جائیں تاکہ گولیاں چلنے تو بند ہوں۔‘

زیلنسکی کا کہنا تھا کہ ’یقیناً میں جنگ روکنا چاہتا ہوں‘، یہاں ٹرمپ نے انھیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے کہا کہ آپ جنگ بندی نہیں چاہتے۔‘ جس پر زیلنسکی نے جواب دیا کہ وہ جنگ بندی کا معاہدہ چاہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ کچھ شرائط اور ضمانتیں دی جائیں۔

انھوں نے صدر ٹرمپ سے کہا کہ یوکرینی عوام سے پوچھیں کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے کے متعلق کیا سوچتے یا چاہتے ہیں۔‘

ایک موقع پر غصے میں نظر آنے والے صدر ٹرمپ نے کہا کہ زیلنسکی امریکہ کی فوجی اور سیاسی حمایت کے لیے کافی شکر گزار نہیں ہیں، اور یہ کہ وہ ’تیسری عالمی جنگ کا خطرہ مول لے رہے ہیں۔‘

صدر ٹرمپ نے زیلنسکی سے کہا کہ ’آپ کا ملک جنگ نہیں جیت رہا، آپ بہت مشکل میں ہیں۔ آپ کا ملک بہت بڑی مشکل میں ہے۔ آپ ہماری وجہ سے اس جنگ سے نکل سکتے ہیں۔‘

انھوں نے صدر بائیڈن پر تنقید کرتے ہوئے زیلنسکی سے کہا کہ ’ہم نے آپ کو 350 ارب ڈالر کی امداد دی، اگر آپ کی فوج کے پاس ہمارا دیا ہوا اسلحہ اور عسکری سازوسامان نہیں ہوتا تو یہ جنگ دو ہفتوں میں ہی ختم ہو جاتی۔‘

ٹرمپ نے زیلنسکی سے کہا کہ ا’ٓپ کو امریکہ کا شکر گزار ہونا چاہیے، آپ کے پاس آپشز نہیں ہیں، آپ کے لوگ مر رہے ہیں، آپ کو فوجیوں کی کمی کاسامنا ہے۔‘

اس دوران یوکرینی صدر متعدد مرتبہ امریکی صدر کی بات کا جواب دینے کی کوشش کرتے رہے لیکن ٹرمپ نے یوکرینی صدر کو بولنے کا موقع ہی نہیں دیا۔

جس پر زیلنسکی نے کہا ’میں جانتا ہوں۔‘

ٹرمپ نے ملاقات میں میڈیا نمائندوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ضروری ہے کہ امریکی عوام کو صورتحال معلوم ہو اسی وجہ سے میں نے یہ ملاقات جاری رکھی ہے۔‘

ٹرمپ نے کہا کہ ایسے آپ کے ساتھ چلنا یا معاہدہ کرنا بہت مشکل ہو گا۔ اس موقع پر ٹرمپ نے زیلنسکی سے کہا کہ ’آپ تیسری عالمی جنگ کا خطرہ مول لے رہے ہیں، آپ امریکہ کی توہین کر رہے ہیں۔‘

اس موقع پر امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے کہا کہ کیا آپ نے ایک بار بھی امریکہ کا شکریہ ادا کیا؟

جس پر زیلنسکی نے کہا بہت بار، جس پر جے ڈی وینس نے کہا کہ میں آج کی ملاقات کے دوران کی بات کر رہا ہوں۔‘

امریکی نائب صدر نے زیلنسکی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ آپ نے گذشتہ برس اکتوبر میں پنسلوینیا کا دورہ کیا اور اپوزیشن کے لیے مہم چلائی۔ امریکہ اور اس صدر کے لیے تعریفی الفاظ پیش کریں جو آپ کے ملک کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

زیلنسکی نے جواب دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ’براہ کرم، آپ کو لگتا ہے کہ اگر آپ جنگ کے بارے میں بہت اونچی آواز میں بات کریں گے…‘ یہاں پر صدر ٹرمپ نے ان کی بات کاٹی اور کہا کہ ’اگر میں روس اور یوکرین کی طرفداری نہ کروں تو آپ میں جنگ بندی کا معاہدہ نہیں ہو سکتا، میں پوتن یا کسی کی طرفداری نہیں کر رہا میں امریکہ کی طرفداری کر رہا ہوں۔‘

انھوں نے اس موقع پر کہا کہ ’زیلنسکی کے دل میں پوتن کے لیے بے پناہ نفرت ہے۔ جبکہ دوسری طرف انھیں بھی ان سے کوئی محبت نہیں ہے۔‘

آپ مجھے سختی کرنا چاہتے ہیں میں کسی بھی انسان سے زیادہ سخت ہو سکتا ہوں لیکن اس صورت میں آپ کا معاہدہ نہیں ہو گا۔‘

اس کے بعد یوکرین کے صدر اور ان کا سٹاف اوول دفتر سے اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلا گیا اور کچھ دیر بعد ہی صدر زیلنسکی کو غصے میں اپنی گاڑی میں وائٹ ہاؤس سے جاتے دیکھا گیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے