نیپال بھر میں پرتشدد احتجاج کے دوران کم از کم 21 افرادسے زائد کی ہلاکت اور حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر عائد پابندی ختم کرنے کے باوجود مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ کھٹمنڈو وادی کے تین سمیت مختلف اضلاع میں مظاہرین کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
وزیراعظم کے پی شرما اولی سمیت چندوزرا نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے ۔
کچھ جگہوں پر مظاہرین کی طرف سے رہنماؤں اور سرکاری دفاتر پر حملے، توڑ پھوڑ اور آگ لگا دی گئی ہے۔
ادھرآر ایس پی کے 20 ارکان پارلیمنٹ نے اجتماعی استعفیٰ دینے کا اعلان کیا ہے۔
مظاہرین نے نیشنل انڈیپینڈنٹ پارٹی کے صدر روی لامیچھانے کو نکھو کی جیل سے باہر نکال لیا ہے۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے رہنما اور لامچھانے کے معاون دیپک بوہارا نے کہا ہے کہ رابی لامیچھانے اب محفوظ ہیں۔
RSVP کے کچھ کارکنوں نے فیس بک پر لائیو ویڈیو نشر کیا جب لامیچھانے کو مظاہرین گھسیٹ کر باہر لے جا رہے تھے۔
ایک ویڈیو میں، لامیچھانے پولیس کے گھیرے میں کھڑے ہیں اور انہیں سلام کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
دارالحکومت کھٹمنڈو میں کرفیو کے نفاذ کے باوجود مظاہرین سڑکوں پر ہیں جنھوں نے نیپال کے سابق وزیر اعظم شیر بہادر دیوبا کے گھر کو نذر آتش کرنے سمیت متعدد سیاسی رہنماؤں کے گھروں پر حملے کیے ہیں۔
مظاہرین نے بعض مقامات پر رہنماؤں اور سرکاری دفاتر پر حملہ کیا، توڑ پھوڑ کی اور آگ لگا دی۔
اس صورتحال کے بیچ نیپالی کانگریس اور جے ایس پی کے تین وزرا ، وزیر داخلہ رمیش لیکھاک، وزیر صحت پردیپ پوڈل اور وزیر زراعت رام ناتھ ادھیکاری نے اپنے عہدوں سے مستعفیٰ ہونے کا اعلان کیا ہے تاہم نوجوان مظاہرین ملک کے وزیر اعظم کے پی اولی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
آر ایس پی کے کچھ لیڈروں نے ایم پی کے عہدوں سے بھی استعفیٰ دینے کا اعلان کیا ہے۔
نیپال کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے کہا ہے کہ کھٹمنڈو وادی کے اندر خراب حالات اور تریبھون بین الاقوامی ہوائی اڈے کے ارد گرد اور پرواز اور لینڈنگ کے راستوں پر دھوئیں کے دیکھے جانے کی وجہ سے ہوائی اڈے کو بند کر دیا گیا ہے، جس سے ہوائی جہاز کی حفاظت بری طرح متاثر ہوگی۔
اتھارٹی نے کہا ہے کہ فیصلے پر فوری عمل درآمد کیا جائے گا۔
اندرون ملک پروازیں پہلے ہی ان خدشات کی وجہ سے معطل کر دی گئی تھیں کہ دارالحکومت سے باہر کے ہوائی اڈے سکیورٹی فراہم کرنے کے قابل نہیں تھے۔
رپورٹس کے مطابق وزیر اطلاعات پریتھوی سبھا نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے پابندی ہٹانے کا فیصلہ سوموار کو رات گئے کابینہ کے ہنگامی اجلاس کے بعد کیا گیا تاکہ ’جنریشن زی کے مطالبات کو حل کیا جائے۔‘
یاد رہے کہ سوموار کے روز ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں نے دارالحکومت کھٹمنڈو میں پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی اور حکومت سے فیس بک، ایکس، یوٹیوب سمیت 26 میڈیا پلیٹ فارمز سے پابندی ختم کرنے اور ملک میں جاری کرپشن کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
واضح رہے کہ دارالحکومت کھٹمنڈو کے علاوہ یہ مظاہرے ملک کے دیگر علاقوں میں بھی ہوئے، جن کی قیادت ملک کے نوجوان طبقے نے کی۔
ان مظاہروں میں پولیس کے ساتھ تصادم میں کم از کم 21 سے زائد افراد ہلاک اور 100 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے ان ہلاکتوں کی ’آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات‘ کا مطالبہ کیا ہے۔
ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ مظاہرین کے خلاف گولہ بارود کا استعمال کیا گیا جبکہ ڈاکٹروں نے بی بی سی نیپالی سروس کو بتایا کہ مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی گئی۔
Share this content:


