کینیڈا، آسٹریلیا ، پرتگال اور برطانیہ کے بعد آج فرانس فلسطین کو ایک خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کرینگے

کینیڈا، آسٹریلیا ، پرتگال اور برطانیہ کے بعد آج فرانس فلسطین کو ایک خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کرینگے۔

کینیڈا، آسٹریلیا ، پرتگال اور برطانیہ نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

کینیڈا اور آسٹریلیا کے بعد برطانوی وزیر اعظم سر کیئر سٹارمر نے برطانیہ کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ ’آج، امن اور دو ریاستی حل کی امید کو زندہ کرنے کے لیے، میں واضح طور پر کہتا ہوں۔۔ اس عظیم ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے۔۔ کہ برطانیہ فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرتا ہے۔‘

کینیڈا اور آسٹریلیا دونوں نے اس ہفتے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کے اپنے ارادوں کا اعلان کیا تھا۔

کینیڈا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والا پہلا جی سیون ملک بن گیا۔

کینیڈا کے بعد آسٹریلیا اس گروپ کا دوسرا ملک بن گیا ہے جس نے باقاعدہ فلسطین کو ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔

وزیر اعظم مارک کارنی نے کہا ہے کہ کینیڈا آج سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرتا ہے۔ اپنے ایکس اکاؤنٹ پر پوسٹ کردہ ایک بیان میں مارک کارنی نے کہ کہا ’کینیڈا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرتا ہے اور ریاست فلسطین اور اسرائیل کی ریاست دونوں کے پرامن مستقبل کے وعدے کی تعمیر میں پارٹنرشپ کی پیش کش کرتا ہے۔

برطانیہ کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے کہا ہے کہ غزہ میں انسانوں کا پیدا کردہ بحران نئی بلندیوں پر پہنچ گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’بھوک اور تباہی مکمل طور پر ناقابل برداشت ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ دسیوں ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جب وہ کھانا اور پانی جمع کرتے ہوئے ہلاک کر دیے گئے۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ موت اور تباہی ہم سب کو خوفزدہ کر دیتی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ کچھ بیمار اور زخمی بچوں کو نکال لیا گیا ہے اور ہم نے انسانی امداد میں اضافہ کیا ہے لیکن ’کہیں بھی خاطر خواہ امداد نہیں پہنچ رہی ہے‘۔

برطانوی وزیر اعظم نے کہا کہ ’ہم اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سرحد پر پابندیاں ختم کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ان ظالمانہ ہتھکنڈوں کو روکیں اور امداد میں اضافہ ہونے دیں۔‘

واضح رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو یہ کہہ چکے ہیں کہ اس طرح کے اقدامات ’دہشت گردی کو نوازنے‘ کے مترادف ہیں۔

برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر کا کہنا ہے کہ انھوں نے غزہ میں حماس کے زیر حراست یرغمالیوں کے برطانوی خاندانوں سے ملاقات کی ہے اور وہ ’ہر روز ان اذیتوں کو برداشت کرتے ہیں‘ اور درد کو دیکھ رہے ہیں جو اسرائیل اور برطانیہ کے لوگوں کے دلوں میں بہت گہرا ہے۔

برطانوی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ یرغمالیوں کو فوری طور پر رہا کیا جانا چاہیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم انھیں گھر واپس لانے سے متعلق جدوجہد جاری رکھیں گے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’حقیقی دو ریاستی حل کے لیے ہمارا مطالبہ [حماس] کے نفرت انگیز وژن کے بالکل برعکس ہے۔ ان کے مطابق ’یہ حل حماس کے لیے انعام نہیں ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حماس کا کوئی مستقبل، حکومت میں کوئی کردار نہیں ہو سکتا اور نہ ہی سلامتی میں کوئی کردار ہو سکتا ہے۔‘

فرانس کے صدر ایمانوئل میخواں نے تصدیق کی ہے کہ ان کی حکومت فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرے گی۔

انھوں نے نیویارک میں اقوام متحدہ سے خطاب میں فرانس کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کرنے سے قبل کہا کہ ’غزہ میں جنگ بند کرنے اور حماس کی جانب سے حراست میں لیے گئے باقی 48 یرغمالیوں کو رہا کرنے کا وقت آگیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’چند لمحوں کی دوری ہے اور پھر دنیا امن کو روک نہیں پائے گی ‘۔

انھوں نے مزید کہا ’ہم مزید انتظار نہیں کر سکتے۔‘

صدر میخواں نے سات اکتوبر کے حملوں کی مذمت کی اور کہا ہے کہ وہ خطے میں امن دیکھنا چاہتے ہیں جو دو ریاستوں کو ساتھ ساتھ رہنے سے پیدا کیا جائے۔

فراسن کے صدر کا کہنا تھا کہ ’جاری جنگ کا کوئی جواز نہیں ہے‘۔ ’

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہر چیز ہمیں مجبور کرتی ہے‘ کہ اسے حتمی انجام تک پہنچائیں۔

Share this content: