پاکستان سمیت 15 اسلامی ممالک نے مشترکہ طور پر اسرائیلی پارلیمان میں منظور ہونے والے قوانین کی مذمت کی ہے جس کے تحت اسرائیل غربِ اردن کا الحاق کرنا چاہتا ہے۔ اسلامی ممالک کا کہنا ہے کہ اس قانون سازی کے تحت اسرائیل مقبوضہ غربِ اردن پر اپنی خودمختاری مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اسرائیل میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں نے ایک ایسے بِل کی ابتدائی منظوری دی ہے جس کا مقصد اسرائیل کو غربِ اردن کے الحاق کا اختیار دینا ہے۔ یہ قانون سازی ایسے وقت پر کی گئی ہے جب چند روز قبل ہی امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو سال کی جنگ کو امن معاہدے کے ذریعے ختم کروایا ہے۔
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل نے ایسا کوئی بھی اقدام کیا تو وہ امریکہ کی حمایت کھو دے گا۔
اسلامی ممالک کے مشترکہ اعلامیے میں اسرائیلی اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ اسرائیل کی مقبوضہ مغربی کنارے پر خودمختاری مسلط کرنے کی ناقابلِ قبول کوشش ہے۔
مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ یہ دونوں مسودے مقبوضہ مغربی کنارے پر ’اسرائیلی خودمختاری‘ نافذ کرنے اور غیر قانونی اسرائیلی بستیاں قائم رکھنے کے لیے ہیں، جو کہ بین الاقوامی قانون اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
یہ اعلامیہ پاکستان، سعودی عرب، قطر، اردن، انڈونیشیا، ترکیہ، جبوتی، عمان، گیمبیا، فلسطین، کویت، لیبیا، ملائیشیا، مصر، نائیجیریا، عرب لیگ، اور تنظیم تعاون اسلامی (او آئی سی ) کی جانب سے جاری کیا گیا۔
مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ 1967 کی سرحدوں کے ساتھ آزاد فلسطینی ریاست ہی پائیدار امن کی ضمانت ہے جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔
اس سے قبل امریکہ کے سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو نے خبردار کیا تھا کہ اسرائیلی پارلیمنٹ کا غربِ اردن کے الحاق کا کوئی بھی اقدام غزہ میں تنازع کے خاتمے کے منصوبے کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
اسرائیل روانگی سے قبل سیکریٹری روبیو کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک ایسی چیز ہے جس کی ہم ابھی حمایت نہیں کر سکتے۔‘
دوسری جانب فلسطینیوں کا دعویٰ ہے کہ سنہ 1967 سے اسرائیل کے قبضے میں موجود غرب اردن ان کی آزاد ریاست کا حصہ ہوگا۔
گذشتہ برس اقوامِ متحدہ کی عدالت انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بھی کہا تھا کہ غربِ اردن پر اسرائیلی قبضہ غیرقانونی ہے۔
نیتن یاہو بھی ماضی میں غربِ اردن کے الحاق کی حمایت میں بولتے رہے ہیں، تاہم ان کی جانب سے کوئی عملی قدم نہیں اُٹھایا گیا تھا کیونکہ وہ اسرائیل کے اہم اتحادی امریکہ کو ناراض کرنے کا خطرہ نہیں اُٹھانا چاہتے تھے۔
Share this content:


