پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر، جسے عرفِ عام میں "آزاد کشمیر” کہا جاتا ہے، کا قیام ٹھیک آج ہی کے دن، 23 اکتوبر 1947ء کی رات عمل میں آیا۔ راولپنڈی کے کمشنر خواجہ عبدالرحیم اور جنرل اکبر کی بیگم، نسیم شاہنواز، کے اشارے پر وہ بساط بچھائی گئی جس پر “آزادی” کے نام کا پہلا مہرہ چلا۔
محمد یوسف صراف کے مطابق، سردار محمد ابراہیم کو عین رات کے پچھلے پہر نیند سے جگا کر بتایا گیا کہ آپ کو آزاد کشمیر کا صدر مقرر کیا جا رہا ہے۔ یوں "بیس کیمپ” حکومت وجود میں آئی — ایک ایسا خواب جو تاریخ کے صفحات پر آج بھی جاگتا ہے۔ جسے وقت و حالات پر پر بیس کیمپ مانابھی جاتا ہے اور نہیں بھی مانا جاتا۔
مگر تاریخ کا ایک عجب مزاج ہے، وہ خود کو دہراتی نہیں، اپنی شکل بدل کر آئینہ دکھاتی ہے۔
آزاد کشمیر کی موجودہ سیاست میں جوڑ توڑ، وفاداریاں بدلنے اور وعدوں کی بازگشت پھر وہی منظر تخلیق کر رہی ہے بس کردار نئے ہیں۔ آج عوام کی نظریں پھر ایک بار اس مسند پر جمی ہیں مگر اب فیصلے کا اختیار بیگم نسیم شاہنواز کے پاس نہیں، حاکمِ زرداری کی بیٹی کے پاس ہے۔
وہ تاج جس کے سر پر رکھے گی وہی اس خطے کا نیا حکمران تصور ہوگا۔ یہی وجہ ہےکہ آزاد کشمیر کے سیاستدانوں کے قافلے پھر لاہور سے لاڑکانہ کی دہلیزوں تک پہنچ چکے ہیں۔
کوئی تحفے دے کر قسمت کا سکندر بننا چاہتا ہے، کوئی خوشامد کے تانے بانے سے اپنی شیروانی کے بٹن سنوار رہا ہے مگر فیصلہ وہ اب بھی کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔
تاریخ کے اس سٹیج پر اب صرف مہرے بدلے ہیں، چال وہی ہے، تماشائی بھی وہی۔
بعض عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ 78 برسوں میں صرف فیصلے کا مرکز لاہور سے لاڑکانہ منتقل ہوا ہے باقی سب کچھ جوں کا توں ہے۔
ادھر ایک نئی صدا گونج رہی ہے، "حقِ حکمرانی” کی۔
یہ نعرہ بلند تو ہے، مگر اس کی تشریح آج بھی دھند میں لپٹی ہوئی ہے۔یہ خطہ اب بھی یہ طے نہیں کر سکا کہ آزادی کا مطلب اختیار ہے یا اجازت۔
شاید یہی وہ رحجانی لکیر ہے
جسے ہم عبور کرنا چاہتے ہیں مگر ہر بار تاریخ ہمیں اپنے ہی قدموں کے نشانوں تک واپس لے آتی ہے۔
***
Share this content:


