15 فروری تک تمام یرغمالی رہا نہ کیے گئے تو غزہ جنگ بندی معاہدہ ختم کر دینا چاہیے، ٹرمپ

 

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تجویز دی ہے کہ اگر سنیچر (15 فروری) تک حماس نے تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا نہ کیا تو جنگ بندی معاہدے کو ختم کر دینا چاہیے۔

انھوں نے حماس کو سنیچر کے روز دن 12 بجے تک وقت دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک، ایک یا دو، دو کر کے نہیں بلکہ تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو ایک ساتھ رہا کرنا چاہیے۔

تاہم امریکی صدر نے زور دیا کہ جنگ بندی ختم کرنے کا فیصلہ اُن کا ذاتی خیال ہے اور اس ضمن میں اسرائیل خود اپنا فیصلہ کر سکتا ہے۔

اب بھی غزہ میں 76 اسرائیلی یرغمالی میں موجود ہیں جن میں سے 73 کو سات اکتوبر کے حملے کے بعد اغوا کیا گیا تھا جب بقیہ تین یرغمالی گذشتہ تقریباً ایک دہائی سے حماس کی قید میں ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اگر یرغمالی رہا نہ کیے گئے تو قہر ٹوٹ پڑے گا۔

جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیا اس سے ان کی مراد اسرائیل کی جانب سے جوابی کارروائی ہے تو اُن کا کہنا تھا کہ ’آپ کو پتہ چل جائے گا اور اُن کو بھی۔ حماس کو پتا چل جائَے گا کہ میرا کیا مطلب ہے۔‘

حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے پہلے مرحلے کے تحت حماس کی جانب سے 33 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی عمل میں لانی جانی تھی اور اس کے بدلے میں اسرائیل کی جیلوں میں قید 1900 فلسطینیوں کو رہائی ملنی تھی۔

جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے میں اب تک حماس کی جانب سے 16 اسرائیلی یرغمالی رہا کیے جا چکے ہیں جبکہ آئندہ چند روز میں 17 مزید یرغمالیوں کو اسرائیل کے حوالے کیا جانا ہے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ اُن کی اطلاعات کے مطابق حماس کی قید میں موجود آٹھ اسرائیلی یرغمالی ہلاک ہو چکے ہیں۔

یاد رہے کہ تین مزید یرغمالیوں کو سنیچر (15 فروری) کے روز رہا کیا جانا تھا۔ تاہم سوموار کے روز حماس کے عسکری ونگ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’وہ مزید اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا عمل ’اگلی اطلاع تک‘ معطل کر رہے ہیں۔‘

حماس کا کہنا ہے کہ گذشتہ تین ہفتوں کے دوران اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی جنگ بندی معاہدے کی ’خلاف ورزیوں میں شمالی غزہ میں بے گھر ہونے والے افراد کی واپسی میں تاخیر ہوئی ہے، غزہ کی پٹی کے مختلف علاقوں میں انھیں شیلنگ اور فائرنگ سے نشانہ بنانا اور جس طرح اتفاق ہوا تھا اس طرح انسانی امداد کو یقینی نہ بنانا‘ شامل ہے۔

حماس کا کہنا کہ ’تحریک (حماس) نے اپنے وعدوں کا مکمل احترام کیا ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ اب یرغمالیوں کی رہائی کا انحصار معاہدے کی شرائط پر عملدرآمد پر ہے۔

دوسری جانب اسرائیل کے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ ’حماس کا اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی روکنے کا اعلان جنگ بندی معاہدے اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کی مکمل خلاف ورزی ہے۔‘

اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ ’میں نے اسرائیلی افواج کو ہدایت کی ہے کہ وہ غزہ میں کسی بھی ممکنہ منظرنامے اور کمیونیٹیز (اسرائیلی شہریوں) کی حفاظت کے لیے مکمل طور پر الرٹ اور ہر سطح پر تیار رہیں۔‘

اقوام متحدہ نے حماس کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل اور حماس کو جنگ بندی کے نازک معاہدے کے اپنے موقف کی پاسداری کرنی چاہیے۔

اقوام متحدہ کے ترجمان فرحان حق نے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ ’ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ تمام فریق جنگ بندی کے تحت اپنے بیان کردہ معاہدوں کی پاسداری کریں اور یہ اہم ہے کہ وہ معاہدے کے تمام متعلقہ پہلوؤں اور تمام متعلقہ ٹائم لائنز کو برقرار رکھیں۔‘

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا حماس یرغمالیوں کی رہائی معطل کرنے کا فیصلہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کے مترادف ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’کسی بھی طرح کی تاخیر‘ ایک ’مسئلہ‘ ہے اور حالات کو مزید خراب کر سکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے