بلوچ آزادی پسند مسلح مزاحمتی تنظیموں کی امبریلہ آرگنائزیشن "بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) کے ترجمان بلوچ خان نے میڈیا کو بھیجے گئے ایک پریس ریلیز میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے مقبوضہ خطہ بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے زہری میں بلوچ سرمچاروں کا کنٹرول برقرار ہے اور پاکستانی فوج کے 37 اہلکار ہلاک کرنے سمیت اسلحات ضبط کرکے 4اہلکار بھی گرفتار کئے۔
ترجمان نے کہاکہ بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) کے سرمچاروں نے خضدار کے علاقے زہری کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ ان حملوں میں قابض فوج کے 37 اہلکار ہلاک کیے گئے جبکہ دشمن فوج کی گاڑیاں، اسلحہ اور دیگر سازوسامان سرمچاروں نے تحویل میں لے لیا جبکہ چھاپوں کے دوران قابض فوج کے 3 اور سی ٹی ڈی کے ایک اہلکار کو حراست میں لیا۔ براس کے سرمچاروں نے کردگاپ، سوراب، مشکے اور مستونگ میں بھی فوج کو حملوں میں نشانہ بنایا اور ناکہ بندیاں قائم کیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کارروائیاں بلوچ راجی آجوئی سنگر کے مربوط اور منظم حملوں کا حصہ ہیں جن کا آغاز 10 اگست کو کیا گیا تھا۔ اس سے قبل براس 71 حملوں کی ذمہ داری قبول کرچکی ہے اور ان تازہ کارروائیوں کے ساتھ مجموعی تعداد 76 ہوگئی۔
بیان میں کہا گیا کہ براس کے سرمچاروں نے 11 اگست کو خضدار کے شہر زہری میں عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ اس دوران منصوبہ بندی کے تحت سرمچار مرکزی شاہراہ اور راستوں پر مورچہ زن ہوگئے۔ قابض فوج نے 13 گاڑیوں کے قافلے کی صورت میں علاقے میں پیش قدمی کی کوشش کی، جسے گزان کے علاقے ذوالفقار آباد میں گھات لگا کر سرمچاروں نے بھاری اور خودکار ہتھیاروں سے نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ حملے کی زد میں آٹھ فوجی گاڑیاں آئیں۔ اس کارروائی کے نتیجے میں قابض فوج کی ایک ٹرک مکمل طور پر تباہ ہوگئی جبکہ سرمچاروں نے دو گاڑیوں کو فوجی سازوسامان سمیت اپنی تحویل میں لیا۔ حملے کے دوران فوجی اہلکار حواس باختہ ہوکر کھیتوں کی طرف بھاگے لیکن سرمچاروں نے ان کا گھیراؤ کرکے متعدد کو ہلاک کردیا۔ کچھ اہلکار مقامی گھروں میں گھس گئے اور خواتین و بچوں کو بطور ڈھال استعمال کرنے کی کوشش کی، تاہم رات گئے بھاگنے کی کوشش میں بھی کئی اہلکار ہلاک یا زخمی ہوگئے۔
ان کا کہنا تھا کہ براس کے سرمچاروں نے گزان ہی کے علاقے سینکوری میں پاکستانی فوج کی ایک چوکی کو راکٹ اور بھاری خودکار ہتھیاروں سے نشانہ بنایا، جبکہ زالکان سے پیش قدمی کرنے والے فوجی دستوں کو اسپیدک کے مقام پر حملے میں پسپائی پر مجبور کیا گیا۔
ترجمان نے کہا کہ دو روز تک جاری رہنے والے ان حملوں میں قابض فوج کے 37 اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ فوج نے ہیلی کاپٹروں سے شیلنگ، ڈرون و کواڈ کاپٹروں سے بمباری کی، تاہم اسے کامیابی نہ مل سکی۔
انہوں نے کہا کہ براس کے سرمچار گزشتہ 20 روز سے زہری پر کنٹرول برقرار رکھے ہوئے ہیں اور مرکزی داخلی راستوں پر چیک پوسٹ قائم کرچکے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ زہری میں چھاپوں کے دوران سرمچاروں نے قابض فوج کے تین اہلکاروں کو حراست میں لیا، جبکہ زہری–قلات شاہراہ پر ناکہ بندی کے دوران کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے ایک اہلکار سمیت ایک اور شخص کو گرفتار کیا گیا۔ ان سے تفتیش جاری ہے، جس کے بعد بلوچ قومی عدالت کے فیصلے کے مطابق ان کی رہائی یا سزا عمل میں لائی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ براس سرمچاروں نے 11 اگست کی رات مستونگ کے علاقے کھڈکوچہ میں فوج کے کیمپ پر حملہ کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سرمچاروں نے 11 اگست کو مستونگ کے علاقے کردگاپ میں مرکزی شاہراہ پر ناکہ بندی کی جو کئی گھنٹوں تک جاری رہی جبکہ لیویز چوکی کو کنٹرول میں لیکر دو گاڑیوں کو تحویل میں لیا۔ بعدازاں فوج نے علاقے میں عام موٹر سائیکل سوار مسافروں پر ہیلی کاپٹروں سے شیلنگ کی، جس کے نتیجے میں تین افراد جاں بحق ہوگئے۔
بلو چ خان نے مزید کہا کہ براس کے سرمچاروں نے 13 اگست کو کیچ کے علاقے سامی میں قابض پاکستانی فورسز کی چوکی پر راکٹ اور دیگر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا، جس کے نتیجے میں فورسز کو جانی اور مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ براس کے سرمچاروں نے 14 اگست کو مشکے کے علاقے تنک گرمیں کور کے مقام پر فوج کو حملے میں نشانہ بنایا۔ جھڑپ ایک گھنٹے سے زائد جاری رہی، جس میں فوج کو جانی نقصان اٹھانا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ سرمچاروں نے 16 اگست کو سوراب میں تارکی ڈیم کے قریب شام کے وقت کوئٹہ–کراچی مرکزی شاہراہ پر ناکہ بندی کی گئی، جو تین گھنٹوں تک جاری رہی۔
آخر میں کہا گیا کہ ان تمام کارروائیوں کی ذمہ داری بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) قبول کرتی ہے۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ قابض پاکستانی فوج، اس کے خفیہ ادارے، ڈیتھ اسکواڈ اور دیگر معاون ڈھانچے جہاں بھی بلوچ قومی وجود، سرزمین، وسائل اور وقار کے خلاف سرگرم ہوں گے، انہیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہماری جدوجہد مکمل آزادی اور قومی خودمختاری کے حصول تک جاری رہے گی، اور قابض قوتوں پر حملے نہ صرف جاری رہیں گے بلکہ مزید شدت اختیار کریں گے۔
تاہم دوسری جانب اب تک پاکستانی حکام کا اس حوالے سے کوئی موقف سامنے نہیں آیا اور بلوچستان میں گذشتہ ایک مہینے سے موبائل انٹرنیٹ ڈیتا کی سروس بھی بند ہے ۔
Share this content:


