بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) نے پاکستان میں کرپشن کو ایک مستقل چیلنج قرار دیا ہے جو اس کے مطابق عاشی ترقی پر سنگین منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔
ادارے نے ملک میں قانونی کی حکمرانی کو کمزور اور انسداد بد عنوانی کے خلاف کوششوں میں سیاسی اثر و رسوخ کی بھی نشاندہی کی ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کردہ گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک اسسمنٹ پر پاکستان سے متعلق ٹیکنیکل اسسٹنس رپورٹ میں عالمی ادارے نے کہا کہ ’پاکستان میں مختلف اشاریے وقت کے ساتھ بدعنوانی کے خلاف کمزور کنٹرول کی عکاسی کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں سرکاری اخراجات کی مؤثریت، محصولات کی وصولی، اور قانونی نظام پر اعتماد متاثر ہوتا ہے۔‘
آئی ایم کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ حکومت کی تمام سطحوں پر بدعنوانی کے خدشات موجود ہیں لیکن سب سے زیادہ معاشی نقصان دہ صورتیں اُن مراعات یافتہ اداروں سے جڑی ہیں جو اہم معاشی شعبوں پر اثر و رسوخ رکھتے ہیں، جن میں وہ ادارے بھی شامل ہیں جو ریاست کی ملکیت ہیں یا اس سے منسلک ہیں۔‘
ادارے کے مطابق ’یہ صورتحال اس تاثر سے مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے کہ انسدادِ بدعنوانی کا طریقہ کار مستقل مزاجی اور غیر جانبداری سے خالی رہا ہے، جس کے باعث کرپشن کے خلاف کام کرنے کرنے والے اداروں پر عوامی اعتماد میں کمی آئی ہے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے ’آئی ایم ایف اور حکومتِ پاکستان دونوں اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کی کمزوریوں کا پائیدار حل ادارہ جاتی اصلاحات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔‘
آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق ’اگرچہ ماضی کے پروگرام معیشت کو مستحکم کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہے لیکن وہ اصلاحات کو ادارہ جاتی شکل دینے اور بنیادی ڈھانچہ جاتی کمزوریوں کو دور کرنے میں کم مؤثر رہے۔ اس عرصے میں عوامی معیارِ زندگی جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کے مقابلے میں پیچھے رہ گیا ہے، جس کی وجہ جزوی طور پر انسانی اور مادی وسائل میں کم سرمایہ کاری اور ریاست کے معیشت میں بڑے کردار سے جڑے پائیدار معاشی بگاڑ ہیں۔ اسی دوران سٹکرکچرل مالی کمزوریاں اور بار بار آنے والے معاشی دباؤ بڑھتی ہوئی مالی ضروریات اور بیرونی شعبے کی کمزوریوں کا باعث بنے ہیں۔‘
رپورٹ میں پاکستان کو کرپشن سے دوچار خطرات کے عوامل پر بات کرتے ہوئے ادارے نے مختلف خامیوں کی نشاندہی کی ہے۔ ان میں بجٹ سازی،مالی معلومات کی رپورٹنگ میں خامیاں، پبلک سیکٹر میں مالیاتی و غیر مالیاتی وسائل کی مینجمنٹ میں کمزوریاں شامل ہیں۔
اس کے ساتھ سرکاری ملکیتی اداروں کے انتظام و نگرانی میں غیرضروری طور پر پیچیدہ اور غیر شفاف ٹیکس نظام بی شامل ہیں جس میں ٹیکس اور کسٹم حکام کم صلاحیت، انتظام، اور نگرانی کافی نہیں ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ’کاروبار کے لیے ضرورت سے زیادہ ضابطے اور حکومتی اداروں کی مداخلت پاکسان میں کاروبار اور اس کے چلانے کے لیے ایک مسئلہ ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں کاروباری معلامات کی نگرانی کے ریگولیٹری ادارے کی کارکردگی پر بھی سوالات ہیں جو زیادہ خودمختار نہیں ہیں۔‘
ادارے کے مطابق ’عدالتی شعبہ تنظیمی طور پر پیچیدہ اور کارکردگی کے مسائل، فرسودہ قوانین، اور ججوں و عدالتی عملے کی ایمانداری سے متعلق خدشات کے باعث معاہدوں پر قابلِ اعتماد عمدل درآمد یا جائیداد کے حقوق کا تحفظ فراہم کرنے سے قاصر ہے۔‘
آئی ایم ایف نے کہا کہ ’عدالتوں میں مقدمات کا بہت بڑا بیک لاگ موجود ہےجو معاہدوں پر عمل درآمد یا جائیداد کے حقوق کے تحفظ کے لیے عدالتوں پر انحصار کو مزید کمزور کرتا ہے۔ ‘
نہ صرف یہ بلکہ ’اس کے ساتھ عدالتی اداروں کی دیانتداری اور خودمختاری سے متعلق گہرے تحفظات اس کی مزید حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔‘
قانون کی حکمرانی کے باب میں آئی ایم ایف نے کہا کہ ’عدالتی شعبے میں طرزِ حکمرانی کی کمزوریاں فریقین کی اس صلاحیت کو محدود کرتی ہیں کہ وہ اپنے معاشی حقوق کے مؤثر نفاذ پر انحصار کر سکیں اور اس کے نتیجے میں بدعنوانی کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔‘
اس کے مطابق ’مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر اکثر متعدد عوامل کی وجہ سے ہوتی ہے، جن میں زیرِ التواء مقدمات کی بڑی تعداد، فرسودہ قوانین و ضوابط اور عدالتی غیر مؤثریت شامل ہیں۔‘
’اس کے علاوہ متعدد اور باہمی مقابل عدالتوں کا وجود جس میں خصوصی اقتصادی عدالتوں اور انتظامی ٹربیونلز کا وسیع نظام شامل ہے قانونی تشریح میں غیر یقینی پیدا کرتا ہے۔‘
انسدادِ بدعنوانی کے باب میں ائی ایم ایف نے کہا ہے کہ ’اس کے لیے کوششیں ایک ہی ادارے پر غیر معمولی انحصار کے باعث محدود رہی ہیں، جو انفرادی بدعنوانی کے مقدمات کی پیروی کے لیے استعمال ہوتا ہے اور شدید سیاسی اثر و رسوخ کا شکار ہے۔‘
Share this content:


