جبر، پسماندگی اور محکومی کے اندھیروں میں ڈوبی جموں کشمیر کی دھرتی جہاں عام انسان کی زندگی محرومیوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ رجعت اور قدامت کا دور دورہ ہے، وحشت کا راج ہے، ساز و آواز پہ قدغن ہے۔ قومی و طبقاتی تضاد شدت اختیار کر چکا ہے وہیں باغ کی دھرتی سے مزاحمت کار خواتین نے جمود شدہ سماج کی بنیادوں پر کاری ضرب لگاتے ہوئے اپنے حقوق کے حصول کے لیے خواتین ایکشن کمیٹی قائم کر کے اس خطے میں ایک نئے عہد کی بنیاد رکھ دی ہے۔
کسی بھی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے خواتین کی شمولیت ناگزیر ہے۔ دنیا بھر کی انقلابی یا مزاحمتی تحریکوں کر اگر دیکھا جائے تو ان میں خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔
پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر میں چلنے والی بنیادی حقوق کی تحریک بھی خواتین کی شمولیت کے بغیر ادھوری تھی۔ یہ اقدام اس تحریک میں جان ڈالے گا اور اس خطے کی مزاحمتی سیاست میں ایک نئے باب کا آغاز ہو گا۔ دوہرے جبر کی شکار خواتین اپنے حقوق کے لیے منظم قوت بن کر اٹھیں گی تو محرومی اور محکومی کے بادل چھٹیں گے۔ یہ مزاحمت، یہ جدوجہد وسعت اختیار کرتے ہوئے پورے خطے کو اپنی گرفت میں لے گی۔ صنفی امتیاز اور ظلم و جبر کے بت پاش پاش ہوں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کی شعوری و نظریاتی تربیت کی جائے۔ کیونکہ اگر انسان سیاسی اور نظریاتی شعور سے نابلد ہو تو دشمن قوتیں تحریکوں کو کچلنے کے لیے جو ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں وہ انہیں سمجھ نہیں پاتا اور اُن کے وار کا شکار بن جاتا ہے۔
سیاسی اور نظریاتی شعور اس لیے بھی ضروری ہے تا کہ یہ تحریک روایتی اور رجعتی قوتوں کے ہاتھوں سے محفوظ رہے اور وقت کے ساتھ بہتر سے بہترین کی طرف گامزن رہے۔ اس تاریخی اقدام پہ باغ کی تمام مزاحمت کار خواتین کو مبارکباد۔
جدوجہد کو سرخ سلام
٭٭٭
Share this content:


