پاکستان پہلگام حملے کی ذمہ داری لینے والے گروہ کے خلاف تعاون پر تیار، انڈیا بی ایل اے کے حوالے سے کارروائی کرے، بلاول

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے انڈین صحافی کرن تھاپر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان پہلگام حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والے گروپ کے خلاف انڈیا سے تعاون کے لیے تیار ہے اور انڈیا کو بھی بی ایل اے اور مجید گروپ کے خلاف پاکستان سے تعاون کرنا ہوگا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ انڈیا اور پاکستان کو جامع مذاکرات کے ذریعے دہشتگردی کے خطرے پر بھی کھل کر بات کرنی چاہیے اور دونوں ملکوں کے لیے اس مشترکہ چینلج سے نکلنے کا رستہ تعاون ہی ہے۔

دی وائر پر 46 منٹ سے زائد نشر ہونے والے اس انٹرویو میں کرن تھاپر بلاول بھٹو سے بار بار لشکر طیبہ اور لشکر جھنگوی سے متعلق سوال کرتے رہے۔ اس انٹرویو میں تکرار بھی ہوتی رہی مگر بلاول کرن تھاپر کو ’یار‘ اور’ بھائی‘ کہہ کر مخاطب کرتے رہے اور یہ کہا کہ ان کا پورا جواب سن لیں یا پھر وہ خود ہی بتا دیں کہ انھیں کیا جواب دینا چاہیے۔ بلاول نے کرن تھاپر کو یہ بھی کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ پر کتنا دباؤ ہے اور اپنے شو میں ایک پاکستانی کو مہمان کے طور پر مدعو کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔

بلاول بھٹو نے دونوں ممالک کے عوام اور بالخصوص نوجوانوں کو مخاطب کیا کہ اب دونوں ممالک آگے بڑھیں اور دونوں ایک دوسرے کے دشمن نہیں اور نہ یہ سارے لوگ دہشتگرد ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کہا کہ وہ پہلگام حملے کے لواحقین کا دکھ سمجھ سکتے ہیں کیونکہ وہ خود دہشتگردی سے متاثرہ ہیں۔

اس کے بعد بلاول بھٹو نے لشکر طیبہ اور جیش محمد کے تاریخی پس منظر پر بات کی اور بتایا کہ کیسے ان گروہوں کے تانے بانے افغان جہاد سے جڑتے ہیں۔ بلاول نے کہا کہ وہ خود دہشتگردی سے متاثرہ ہیں اور ان کی ماں بینظیر بھٹو نے بھی اس جنگ میں اپنی جان دی۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ’ہم کئی دہائیوں سے دہشتگردی کا مقابلہ کرتے آ رہے ہیں۔ ہم اس برائی کے ڈسے ہوئے ہیں اور اس جنگ میں ہم نے 92000 جانوں کی قربانی دی ہے۔‘

بلاول بھٹو نے کہا کہ گذشتہ برس 200 دہشتگردی کے حملوں میں ہم نے 1200 سے زیادہ افراد اس جنگ میں کھوئے ہیں۔

ان کے مطابق رواں برس جتنے حملے ہوئے ہیں اور لوگ مارے گئے ہیں اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا یہ پاکستان کا خونی ترین سال ہوگا۔

کرن تھاپر نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دنیا ٹی وی اور انڈیا ٹو ڈے کو دیے گئے انٹرویوز کا حوالہ دیا کہ آئی ایس آئی نے لشکر طیبہ اور جیش محمد کو کشمیر میں لڑنے کے لیے تربیت دی اور حافظ سعید اور ذکی الرحمان لکھوی ہمارے ہیروز تھے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ مشرف نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا تھ کہ جب تک انڈیا مسئلہ کشمیر کا تصفیہ نہیں کرتا تو ایسے حملے جاری رہیں گے۔

بلاول بھٹو نے مشرف کو ڈکٹیٹر کہہ کر پکارا اور پھر یہ بھی کہا کہ 9/11 سے قبل یہ گروپس فریڈم فائٹرز کے طور پر دیکھے جاتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’افغانستان جہاد اور سرد جنگ کے دوران میری ماں اور میری جماعت کی پالیسی یہ کبھی نہیں رہی۔‘

بلاول بھٹو نے کرن تھاپر کو اس انٹرویو میں متعدد بار بتایا کہ ہم ماضی میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ انھوں نے انڈیا کو آگے بڑھنے کا مشورہ بھی دیا۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ماضی ہے، پاکستان ایک عمل سے گزرا ہے اور انڈیا اس عمل کو نظر انداز کر رہا ہے۔

ان کے مطابق پاکستان افغان جنگ کے بعد بطور معاشرہ اور ریاست تبدیل ہوا ہے اور افغانستان کے بعد ایسے گروہوں کا نشانہ بھی بنا ہے جو القاعدہ اور دوسرے گروہوں میں تقسیم ہوئے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان کسی اور ملک اور اپنے ملک میں دہشتگردی کے حملوں کی اجازت نہیں دیتا اور دہشتگردی کے اس ناسور سے نبرد آزما ہے۔

کرن تھاپر نے کہا کہ آپ نے ابھی تک انڈیا پر حملے بند نہیں کیے ہیں اور پہلگام کے بعد پاکستان نے دنیا کو یہ بتایا کہ وہ اس میں ملوث نہیں ہے جبکہ ’دی رزسٹینس فرنٹ‘ نامی گروہ نے 45 منٹ میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ کرن تھاپر نے اس کے بعد کہا کہ انڈیا نے تین بار اس گروپ کو اقوام متحدہ کی کالعدم تنظیموں کی فہرست میں درج کرانے کی کوشش کی جسے چین نے پاکستان کی ایما پر بلاک کر دیا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ’ہم اس گروپ کے خلاف ہر تعاون کے لیے تیار ہیں۔‘ اس کے بعد بلاول نے کہا کہ جب بھی پاکستان نے بی ایل اے اور مجید گروپ کو اقوام متحدہ کی کالعدم تنظیموں کی فہرست میں ڈالنے کی کوشش کی تو انڈیا کی طرف سے اس کی مخالفت سامنے آئی۔

بلاول بھٹو نے یہاں ایک بار پھر کرن تھاپر کی اس طرف توجہ مبذول کروائی کہ ’ہم ماضی سے متعلق ہی بات کر رہے ہیں کیا ہم حال پر بھی بات کر سکتے ہیں۔‘

اس کے بعد بلاول بھٹو نے کہا کہ ’ہم نے پاکستان کے اندر دہشتگرد گروہوں کے خلاف فوجی کارروائیاں کیں کیونکہ ایسے متعدد گروپس پاکستان میں متحرک ہیں۔‘ بلاول بھٹو نے کہا کہ ’میری ماں کی شہادت کے بعد میرے والد کی حکومت نے ان گروہوں کے خلاف جنوبی اور شمالی وزیرستان میں آپریشن کیے۔‘

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے اس کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا، فیٹف کے تحت اقدامات اٹھائے جسے عالمی برادری نے تسلیم بھی کیا۔ انھوں نے کرن تھاپر کو بتایا کہ یہ بہت ہی کڑی نگرانی والا عمل تھا۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ لڑائی کا حوالہ دیتے ہوئے کرن تھاپر نے کہا کہ مریدکے پر انڈین حملے کے بعد وہاں مرنے والوں کا نماز جنازہ مبینہ طور پر لشکر طیبہ سے وابستہ اور الفلاح انسانیت کے سربراہ حافظ عبدالرؤف نے پڑھائی ہے۔ کرن تھاپر نے کہا کہ اس جنازے میں لاہور کے کور کمانڈر، ایک میجر جنرل اور متعدد جونیئر فوجی افسران شامل تھے۔

بلاول بھٹو نے اپنے جواب میں کہا کہ وہ اس شخص کے بارے میں معلومات نہیں رکھتے۔ تاہم بلاول نے پہلگام حملے پر بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاتھ صاف تھے تو ہم نے تحقیقات کا کہا جبکہ انڈیا نے عالمی سطح پر آزاد تحقیقات کی پیشکش کو ماننے سے ہی انکار کر دیا۔

بلاول نے کہا کہ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے، انڈیا کو الزامات کے بجائے ثبوت پیش کرنے چاہیں۔ ان کے مطابق اس حملے کے بعد انڈین میڈیا پر جعلی اور گمراہ کن خبروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

بلاول بھٹو نے کرن تھاپر کو ممبئی حملوں سے متعلق بتایا کہ انڈیا نہ گواہ پیش کر رہا ہے اور نہ ثبوت دے رہا ہے۔ انھوں نے کہا یہ مقدمہ ابھی زیر التوا ہے اور پاکستان ان حملوں میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے آج بھی پرعزم ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا پاکستان نے لشکر طیبہ اور جیش محمد کے خلاف بھرپور کارروائی کی۔ پاکستان نے دہشتگردی کی مالی معاونت کرنے پر 2645 سے زائد مقدمات درج کیے اور ان میں سے ابھی تک 549 افراد کو سزا بھی ہو چکی ہے۔

انھوں نے کہا کہ حافظ سعید کو بھی 31 برس کی سزا سنائی جا چکی ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان نے انسداد دہشتگردی کے قوانین کے تحت 2000 سے زائد افراد اور 80 سے زائد تنظیموں پر پابندی عائد کی ہے۔

کرن تھاپر اپنے انٹرویو میں ایف آئی اے کے سابق سربراہ طارق کھوسہ کے ڈان میں شائع ایک آرٹیکل کا بار بار حوالہ دیتے رہے اور اس موقع پر بلاول بھٹو نے کہا کہ ڈان میرا اخبار ہے اور ایک اخبار کے کالم کو ثبوت کے طور پر عدالت میں نہیں پیش کیا جا سکتا اس کے لیے انڈیا کو تعاون کرنا ہوگا اور اسے ویڈیو لنک کے بجائے قانون کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے عدالتوں کے سامنے گواہان اور ثبوت پیش کرنا ہوں گے۔

بلاول بھٹو نے کرن تھاپر سے یہ بھی کہا کہ 2007 میں سمجھوتہ ایکسپریس پر حملے میں 40 پاکستانی مارے گئے مگر آج تک انڈیا اس بارے میں کچھ پیشرفت نہیں کر سکا۔ بلاول نے کہا کہ جن ملزمان نے اعتراف کیا انھیں یہ بیانات تک واپس لینے پر مجبور کیا گیا۔

کرن تھاپر نے یہ بھی سوال کیا کہ پاکستان مرکزی مسلم لیگ، جموں و کشمیر یونائیٹڈ موومنٹ کی صورت میں دہشتگرد گروہ پھر سے منظم ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے سوال کیا کہ حافظ سعید، مسعود اظہر، عبدالرحمان مکی، ذکی الرحمان لکھوی اور ساجد میر پاکستان کی حفاظتی تحویل میں ہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان نے دہشتگرد تنظیموں کے دھڑوں کے خلاف بھی کارروائیاں کی ہیں۔ بلاول بھٹو نے مسعود اظہر کی پاکستان میں موجودگی سے انکار کیا اور کہا کہ وہ شاید افغانستان میں ہیں۔ جب کرن تھاپر نے 2018 کے صدر ٹرمپ کے پاکستان سے متعلق بیان کا حوالہ دیا کہ یہ ملک دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہ ہے تو بلاول نے کہا کہ ’مجھے خوشی ہوئی ہے کہ آپ کو امریکی صدر اور ان کے حکام کے بیانات پر اتنا بھروسہ ہے۔‘

اس کے بعد بلاول نے کہا کہ اب جو امریکی حکام کہہ رہے ہیں اور جو امریکی جنرل نے کانگریس کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کیسے کامیابی سے دہشتگردی کے خلاف لڑ رہا ہے تو اس پر بھی آپ کو اتنا ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ دہشتگردی آج انڈیا اور پاکستان دونوں کے لیے خطرہ ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’آج پاکستان میں جو دہشتگردی کے حملے ہو رہے ہیں یہ انڈیا کی پشت پناہی میں ہو رہے ہیں۔‘ بلاول بھٹو نے کہا کہ میں آپ کو اس کے ثبوت دے سکتا ہوں اور پھر انھوں نے کلبھوشن کا نام لیا کہ وہ انڈین فوج کا ایک حاضر سروس افسر ہے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملے کے تانے بانے بھی انڈین ایجنسیوں سے ملتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ آج بھی انڈیا کا وزیر اعظم اور ان کی حکومت پاکستان کے 240 ملین لوگوں کے پانی کی سپلائی بند کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ کیا وہ انڈس سولائزیشن کے دشمن بن گئے ہیں جو گاندھی اور انڈیا کی فلاسفی کے بھی خلاف ہے۔

کرن تھاپر نے بلاول سے کہا کہ یہ دہشتگردی آپ کی اپنی پیداوار ہے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ اب انڈیا اور پاکستان کو جامع مذاکرات کی طرف آنا ہوگا۔

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ انڈیا اور پاکستان میں 2012 میں یہ معاہدہ ہوا تھا کہ وہ ایک دوسرے کو ان دہشتگرد گروہوں کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کریں گے۔ ان کے مطابق پاکستان یہ بتاتا رہا کہ حملے کرنے کی غرض سے کون سے لوگ سرحد پار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق لشکر طیبہ اور جیش محمد کے بارے میں پاکستان نے انڈیا کو جبکہ انڈیا نے بی ایل اے، مجید گروپ اور اس طرح کے دیگر گروہوں سے متعلق معلومات دینی تھیں۔

Share this content: