اٹھارويں صدی ميں يورپی سماج مکمل طور پر چرچ کے کنٹرول ميں تھا۔ حکمران طبقات خود کو اللہ کا بھيجا ہوا نمائندہ کہتے تھے اور حکمران طبقات کے خلاف کسی بھی طرح کی بات خدا کی مخالفت گردانی جاتی تھی ۔ يعنی حکمران جو چاہے کريں اُنہيں خدا نے منتخب کيا ہے لہذا عام آدمی کو کسی طور اپنے حکمران کے خلاف آواز اٹھانے کا اختيار نہيں اگر کسی نے حکمران کی مخالفت کی تو يہ خدا کی مخالفت سمجھی جاتی تھی۔ البتہ اتنی آزادی ضرور تھی کہ اگر کسی کو اپنے حکمران سے کوئ شکوہ شکايت ہوتی تو اُسے اختيار تھا کہ وہ اپنے حکمران کی مخالفت کی بجاۓ وہ خدا سے معافی مانگے اور روۓ دھوۓ ، گڑگڑاۓ تاکہ خدا اُس پر کرم کرے مگر خدا کے مقرر کردہ حکمران کے خلاف آواز نہ اٹھا۔
معروف جرمن فلسفی فريڈرک نتشے کی کتاب the joyful wisdom جو 1882 ميں منظرعام پر آئ ميں اُسکا کہنا تھا کہ خدا مر چُکا ہے۔ نتشے کے کہنے کا مطلب خدا کی وجوديت کا انکار يا واقعتا خدا کی موت کا کوئ اعلان نہيں تھا بلکہ مروجہ سماج ميں جہاں حکمران طبقہ اپنے ہر عمل حتی کہ عوام کی محروميوں کو بھی خدا کی طرف سے بتاتا تھا وہاں لوگوں کو حقيقت کی طرف متوجہ کرنا مشکل مگر اعلی ترين کام تھا۔ اُس کا فلسفہ کہ خدا مر چُکا ہے کا مطلب يہ تھا کہ سماج تم انسانوں کا ہے اور تم انسان ہی اس کی بہتری و بدحالی بارے فيصلہ کرو گے۔ بہتر فيصلے کرو گے تو سماج ترقی کرے گا اور اگر اسی طرح خوف و جہالت ميں مبتلا ہو کر جمہود کا شکار رہو گے اور حکمران تمہيں خدا کے نام کا ڈراوا ديگر اسی طرح محکوم و محروم رکھيں گے۔ آج ايسا لگ رہا ہے کہ تاريخ کا پہہ اُلٹا گھوم گيا اور ہم نتشے کے دور ميں کھڑے ہيں۔
اللہ سبحان و تعالی نے اس کائنات کی تخليق جن اصولوں پر کی وہ اُصول وقتا فوقتا پيغمبر اتار کر اور پھر قرآنِ حکيم ميں بھی وضاحت کے ساتھ بيان کر ديے ۔ اللہ تعالی نے انسان کو مخصوص وقت تک دُنيا ميں بھيجا ہوا ہے اور اس مخصوص وقت ميں انسان کے اعمال خدا کی مرضی سے نہيں انسان کی مرضی سے واقع ہوتے ہيں اور يہی وجہ ہے کہ ان اعمال کے بارے ميں انسان کو جوابدہ بھی ہونا ہے۔ خدا کائنات کے بارے ميں غور و فکر اور اسے تسخیر کرنے کا کہتا ہے علم و شعور پہ پابندی نہيں لگاتا ۔ آج معاشرے ميں اس قدر دوہرا پن ، جھوٹ اور منافقت ہے کہ ہر وہ شخص بھی خدا کی جانب سے “چُنا ہوا” مبلغ و مصلح ہے جسے خود نہ خدا اور نہ اُسکے پيغمبروں کی ہی تعليمات کا اتہ پتہ ہے۔
انسانی سماج ، قوم، ملک، وطن وغيرہ انسانی ضروريات ميں سے ہيں ۔ خدا کو انسانی قوم ، ملک وطن کی کوئ حاجت نہيں ہے۔
کرپشن، جھوٹ، فريب، ناانصافی، کم تول، رشوت، سُود وغيرہ آج کے عہد کے عملًا رائج قوانين ہيں۔ اس ساری گند کو صاف کرنے کے لئے اس گند کے خلاف کھڑا ہونا ضروری ہے مگر بدقسمتی سے يہاں بھی اللہ تعالی پہ چھوڑ کر اپنا ايمان ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ يہ طے ہے کہ ہسپتال خدا نے نہ بنانا ہے نہ چلانا ہے، عدالت نہ خدا کو بنانے کی ضرورت نہ اُسے چلانے کی۔ الغرض سماج ميں جتنے بھی ادارے ہيں وہ ہم انسانوں کی ضرورت ہيں نہ کہ خدا کی۔ ان اداروں يا مجموعی طور پر سماج کو بہتر بنانا اُس سماج ميں بسنے والے انسانوں کا کام ہے نہ کہ خُدا کا۔
يہی نتشے کا اُس وقت کہنا تھا کہ لوگو تم خود تو کچھ کرتے نہيں ہو اور خدا پہ تکيہ لگاۓ بيٹھے ہو اب يوں سمجھ لو کہ خدا مر چُکا ہے۔ لہذا يہ سارے کام تمہيں خود کرنے پڑينگے۔ خود سماج ميں بہتری لانی پڑے گی خود سماج کا نظام بہتر کر کے انسانيت کی معراج کو پانا ہو گا۔ سماجی ترقی اور انسانی فلاح کا راستہ خود اپنی محنت سے ڈھونڈنا ہو گا ۔ خدا کو تمہاری ہسپتالوں، تعليمی اداروں، لاری اڈوں، بازاروں مارکيٹوں سے کوئ غرض نہيں نہ اُس نے بنا کر دينے ہيں نہ اُنکی ديکھ بھال کرنی ہے۔ يہ سارے کام تمہارے خود کے کرنے کے ہيں اور ان سب کے لئے خدا کسی صورت بھی ذمہ دار نہيں ہے۔
آج حالت يہ ہے کہ حقائق کا ادراک کئے بغير لفاظی استعمال کر کے اپنی جان چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عالم يہ ہے کہ ناقص سروے يا ٹھکيدار کی ناقص بنائ گئ سڑک کی وجہ سے حادثے ميں جانيں ضائع ہوں تو قتل کی بجاۓ اللہ کی مرضی ، نااہل و بے احتياط ڈرائيور لوگوں کی جان لے لے تو اللہ کی مرضی ، ڈاکٹر اپنی ڈيوٹی کی بجاۓ آرام فرماۓ، پرائيويٹ کلنک ميں کام کرے يا موجود ہو تو غلط ادويات سے مريض کی جان چلی جاۓ تو اللہ کی مرضی، عدالتوں ميں انصاف کی بجاۓ پيسے چليں تو اللہ کی مرضی، کوئ قتل ہو جاۓ اللہ کی مرضی، سماجی ناانصافیوں سے تنگ آ کر خودکُشی کر لے اللہ کی مرضی، سرکاری ملازمين اپنے اداروں اور کام پہ توجہ کی بجاۓ سياست کريں اللہ کی مرضی، نااہل لوگوں کو صاحبِ اختيار بنايا جاۓ تو اللہ کی مرضی۔۔۔ اور ہم خاموش ۔۔
الغرض ہر چيز ہر واقعے کو اللہ کی مرضی، اللہ ہدايت دے ، اللہ رحم کرے، اللہ مغفرت کرے وغيرہ کہہ کر اپنی ذمہ داريوں سے جان چھڑانے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔ خدا نے ہمارے ہسپتال، سکول ، بازار ، تھانے عدالتيں نہيں چلانے ۔ يہ ہم نے چلانے ہيں اور اگر ان اداروں ميں ناانصافی اور کرپشن ہو رہی ہے تو اسکے ذمہ دار ہم ہيں خدا نہيں۔ قاتل کو پکڑنے کی بجاۓ تاويليں گھڑنا خدا کی منشاء نہيں ہماری بے ضميری ہے۔ کم تول اور جھوٹ بول منافقت دغا بازی خدا کی مرضی نہيں بلکہ ہماری مُردنی ہے۔ کب تک خدا کے نام کے پيچھے اپنے کرتوت چھپاتے پھريں گے؟ کب تک بے ضميری اور منافقت و مصلحت کا کردار نبھائيں گے؟ کب تک مسجدوں ميں جھوٹ بول کر جائينگے اور جھوٹ بولتے ہوۓ آئيں گے ؟ کب تک کرپشن ، جُرم و نوسربازی پہ خاموش ہو کر اونچی اونچی آواز سے اللہ اکبر کا پکارا دينگے ؟
يہ ہمارا سماج ہے اس سماج کی ترقی و تنزلی ہمارے کردار، رويے ، سوچ اور عمل سے جُڑی ہے خدا کی مرضی و منشاء سے نہيں۔ خدا ہم سے ہماری مرضی و منشاء کے مطابق کئے گۓ کام کا حساب لے گا۔ خدا قاتل نہيں پکڑ کے دے گا، جھوٹ ، دغاباز و منافقوں کو نہيں روکے گا، کرپشن و اقرابا پروری کو نہيں بند کرے گا، ہمارے ادارے خدا نہيں چلاۓ گا ، ہماری سڑکيں اور کھمبے خدا نہيں بناۓ گا، خدا ہمارے ساتھ ظلم و ناانصافی نہيں کرے گا اور نہ ہی خدا ہميں قتل کرے گا ۔ يہ سب ہمارے کام ہيں ان کے ذمہ دار ہم ہيں خدا ذمہ دار نہيں نہ ہی خدا کی مرضی ہے۔
انتہائ ضروری ہے کہ خدا کی بزرگی و برتری کا ادراک رکھتے ہوۓ اپنے انسان ہونے کا احساس پيدا کيا جاۓ اور عملًا انسانی کردار سے معاشرے کی بُرائيوں کو للکارتے ہوۓ ايک معزز اور بہتر سماج کی تشکيل کی کوشش کی جاۓ۔ خدا کے نام کے پيچھے چھپنے سے مسائل حل نہيں ہونگے بلکہ درست انسانی عمل ايک بہترين اور انسان دوست سماج کی تخليق کر پاۓ گا۔ تو مردہ پرستی کی بجاۓ زندہ انسانوں سے ہمدردی و محبت کا اظہار کيا جاۓ۔ اپنی سماجی ذمہ داريوں کو محسوس کرتے ہوۓ ہر حالت ميں اپنی ذمہ دارياں نبھانے کا عہد کيا جاۓ۔ ہمارے بہتر طرزِ زندگی اور انصاف پہ مبنی سماج کے قيام پر خدا کو بالکل بُرا نہيں لگے کا۔
٭٭٭
Share this content:


