پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں لینڈ سلائیڈنگ سے 11 مکانات زمین بوس، کئی گھروں میں دراڑیں

پاکستان کے زیر انتظام مقبوضہ جموں کشمیر کے ضلع میرپور کے قریب واقع گاؤں پوٹھہ بینسی میں زمین سرکنے کے باعث 11 بڑے مکانات زمین بوس ہوگئے ہیں، جب کہ گاؤں کی واحد مین سڑک بھی تباہ ہو چکی ہے۔

پوٹھہ بینسی، جو میرپور شہر سے تقریباً 10 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے اور جہاں بڑی تعداد میں اوورسیز کشمیری آباد ہیں، میں منگلا ڈیم کی پانی کی سطح بلند ہونے کے بعد زمین سرکنے کا سلسلہ جاری ہے۔

مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ جمعہ کی صبح سے مکانوں میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئیں، جس کے بعد انھوں نے اپنے سامان اور اہل خانہ کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا شروع کیا۔ تاہم جمعہ کی نماز کے بعد واپس آنے پر کئی مکان زمین بوس ہو چکے تھے۔

کمشنر میرپور ڈویژن چوھدری مختار حسین نے بتایا کہ متاثرہ علاقے کا دورہ کیا گیا ہے اور زمین سرکنے کا یہ عمل گذشتہ رات سے جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب تک ایک ارب روپے مالیت کے مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔ متاثرہ گاؤں کی واحد مین سڑک بھی مکمل طور پر زمین بوس ہو چکی ہے، جس کی فوری مرمت کے احکامات دے دیے گئے ہیں۔

کمشنر نے مزید بتایا کہ اس گاؤں کی زیادہ تر آبادی بیرون ملک خاص طور پر برطانیہ میں آباد ہے، اور مقامی افراد اپنی مدد آپ کے تحت محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ آٹھ ماہ قبل بھی 27 مکانوں کو جزوی نقصان پہنچا تھا جبکہ گذشتہ روز 11 سے 12 مکان مکمل طور پر زمین دھنسی کا شکار ہوئے ہیں۔

زمین سرکنے کی بنیادی وجہ منگلا ڈیم میں پانی کی بلند سطح ہے، جہاں پانی کی گنجائش 1242 کیوسک ہے۔ جب منگلا ڈیم میں ہانی بھر جاتا تو معلقہ علاقوں میں نقصان کے خدشات بھڑ جاتے ہیں۔

چوھدری مختار حسین نے کہا کہ واپڈا کو پہلے بھی خط لکھا جا چکا ہے اور اب دوبارہ لکھا جا رہا ہے کہ متاثرین کی متبادل آبادکاری کی جائے اور نقصان کا ازالہ کیا جائے تاکہ لوگ اپنے مکان تعمیر کر سکیں۔

یہ واقعہ منگلا ڈیم سے ملحقہ علاقوں میں پانی کی بلند سطح کی وجہ سے زمین کے متاثر ہونے کا ایک تازہ واقعہ ہے، جس نے مقامی لوگوں کو شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔

محمد سلیم نے بتایا ’ہمارے کروڑوں روپے کے رہائشی مکان تھے جو مکمل تباہ ہو گئے ہیں۔ ان کے مطابق ’حکومت اور واپڈا کو چائیے تھا یہ بروقت اقدامات کرتے اور لوگوں کو متبادل جگہ دیتے، اس وقت یہاں آباد کاری نہ ہوتی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اب تو ہمیں جگہ ملے بھی تو ہمارا نقصان تو ہو گیا۔ ہمارا ایک مکان پانچ چھے کروڑ مالیت کا تھا۔‘

Share this content: