سبزہ زار کے مست بیل ۔۔۔ فرحان طارق

یوں تو انسان بھی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، مگر آج ایک چراگاہ کے دو بیل "رحجانی لکیر” کو روندنے والے تھے۔ یہ کوئی عام دن نہیں تھا، بلکہ ایک ایسا لمحہ تھا جس نے دیکھنے والوں کو لمحوں کے لیے اپنے سحر میں جکڑ لیا۔

شاید آپ کا بچپن بھی گاؤں میں گزرا ہو، یا بڑوں سے سنا ہو کہ اکثر چراگاہوں میں بیل ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے آمنے سامنے آتے ہیں۔ سرسبز میدانوں میں دور سے لمبی رئیس کے ساتھ آگے بڑھنا اور ایک نقطے پر آ کر جم جانا — یہی ان کی لڑائی کا نقطۂ آغاز ہوتا ہے۔ یہ منظر نہ صرف دیگر جانوروں بلکہ آس پاس موجود انسانوں کے لیے بھی ایک توجہ طلب مظاہرہ بن جاتا ہے۔

یہ گزرے مئی کی بات ہے۔

پیر پنجال ریجن اور گنگا چوٹی کے دامن میں جب ملک بھر سے گرمی سے ستائے شہری ملکۂ حسن کی تازہ ہوا سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ کوئی سبزہ زار پر ننگے پاؤں چل کر زندگی کا مزہ لے رہا تھا تو کوئی سیلفی لینے میں مصروف۔ ایسے میں دو بیلوں کی لڑائی نے سب کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔

پھر کیا تھا!

پیر پنجال کے پہاڑوں سے سورج کی کرنیں پڑ رہی تھیں، ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں، اور ان کے ساتھ ایک سرِکس سا آغاز ہو گیا۔ تمام لوگ اپنی مصروفیات چھوڑ کر لڑائی دیکھنے پر مجبور ہو گئے۔ کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہ کی کہ یہ بیل کیوں لڑ رہے ہیں، انہیں کس نے ایک دوسرے کے سامنے ہانکا۔ سینگوں کے ٹکرانے سے زمین تک لرز گئی۔ کمزور دل والوں کے لیے یہ منظر ترس پیدا کر رہا تھا، مگر مضبوط دل والے اس "قدرتی کھیل” سے محظوظ ہو رہے تھے۔

یہ سارا تماشہ تقریباً چھ سے سات منٹ جاری رہا۔

تماش بینوں کی نظریں انہی پر جمی رہیں۔ قابلِ غور بات یہ تھی کہ جہاں یہ لڑائی جاری تھی، وہاں کچھ دیر قبل چیونٹیوں کا ایک قافلہ وہاں سے خوراک کی تلاش میں گزر رہا تھا بیلوں کے ٹکراؤ سے اڑتی دھول میں کچھ چیونٹیاں مٹ گئیں، کچھ ان کی ٹانگوں تلے آ کر اپنی خوراک کی تلاش کا مشن نامکمل چھوڑ گئیں۔ صرف چیونٹیاں ہی نہیں، بلکہ دیگر حشرات — خصوصاً ڈھنگ (وہ چھوٹے حشرات جو جانوروں کی پیٹھ پر بیٹھ کر ان کا خون چوستے ہیں) — بھی اس جنگ کا نشانہ بنے۔

بیلوں کے طاقتور دم جھٹکنے سے درجنوں ڈھنگ اور مکھیاں بھی ہلاک ہو گئیں۔

ظاہر ہے، بیلوں کی اس لڑائی میں ان ننھے حشرات کی کیا حیثیت؟ لوگ تو صرف بیلوں کی طاقت اور جوش دیکھنا تھا۔

در حقیقت، موسمِ بہار آتے ہی گنگا چوٹی اور گردونواح کے علاقے میں لوگ اپنے مویشیوں، بشمول بیلوں، کو چراگاہوں میں چھوڑ دیتے ہیں تاکہ تازہ گھاس اور صاف ہوا کے باعث ان کی نشوونما بہتر ہو۔ مگر اس روز جو منظر دیکھنے کو ملا، وہ کسی حقیقی لڑائی سے زیادہ ایک فطری مستی کا مظہر تھا۔

کیوں کہ یہ دونوں بیل کئی ماہ سے اکٹھے چر رہے تھے، ایک ہی جبڑے سے پانی پیتے تھے۔

ان کی یہ "لڑائی” دراصل سیاحوں کی توجہ حاصل کرنے اور اپنی مستی دکھانے کا ایک انداز تھی — جو بالآخر بے نتیجہ ختم ہوئی۔

لڑائی کے اختتام پر سیاحوں میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں کہ "یہ سرخ بیل کس کا ہے جس کی دم کالی ہے؟” مگر کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ بیل کس کے ہیں، ان کا مالک کون ہے — کیوں کہ وہ سب  نا معلوم تھے۔

***

Share this content: