اسلام آباد ارو وانا حملوں کے بعد افغانستان میں کارروائی کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا، خواجہ آصف

پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کچہری میں خودکش حملے اور وانا میں کیڈٹ کالج پر شدت پسندوں کے حملے کے بعد پاکستان افغانستان میں کارروائی کر سکتا ہے۔

منگل کی شب جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں جب اُن سے سوال پوچھا گیا کہ کیا حالیہ حملوں کے بعد پاکستان افغانستان میں کارروائی کر سکتا ہے؟ اس پر وزیرِ دفاع نے کہا کہ ’جی بالکل کر سکتا ہے، اس امکان کو رد نہیں کرنا چاہیے۔‘

میزبان کی جانب سے سوال کیا گیا کہ افغانستان نے وانا کیڈٹ کالج اور اسلام آباد میں حملوں کی مذمت کی ہے، جس پر خواجہ آصف کا کہنا تھا ’مذمت کرنا یا افسوس کرنا سچائی کا ثبوت نہیں ہو سکتا۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’وانا میں بچوں کو شہید کرنے کی سازش تھی، وہ دوبارہ اسی طرح کی قیامت برپا ہونی تھی، جیسی آج سے کئی برس قبل آرمی پبلک سکول پشاور میں ہوئی تھی۔‘

خواجہ آصف نے دعویٰ کیا کہ فوج نے کیڈٹ کالج کے طالبعلموں، اساتذہ اور عملے کے دیگر ارکان سمیت 635 افراد کو بچا لیا ہے۔ ’اسلام آباد میں حملہ ایک عندیہ ہے کہ وہ ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہ ہم یہاں تک پہنچ سکتے ہیں اور یہاں بھی کارروائیاں کر سکتے ہیں۔‘

’ہمیں خود کو ایسے بیوقوف نہیں بنانا چاہیے کہ طالبان مخلص ہیں اور وہ امن چاہتے ہیں، یا بات چیت چاہتے ہیں۔‘

پیر اور منگل کے روز ہونے والے حملوں کے متعلق بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’ان حملوں کو افغانستان کی جانب سے مستقبل میں ہونے والی جارحیت کا آغاز سمجھا جا سکتا ہے اور یہ جارحیت دراصل انڈیا کی ہو گی جو افغانستان کے راستے ہمارے ملک میں کی جا رہی ہے۔

’اس میں کسی کو غلط فہمی نہیں رہنی چاہیے کہ ہمارے ہمسائے کا دشمنی کا رویہ سامنے آ چکا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں افغانستان کے ساتھ مذاکرات کے تینوں ادوار میں پاکستان نے صرف ایک مطالبہ کیا تھا افغان طالبان اپنی سر زمین سے دہشتگردی نہ ہونے دیں۔

’یہ تمام دہشتگرد وہاں سے آئے ہوئے ہیں۔۔۔۔ گذشتہ کئی ماہ کے دوران وہ یہاں داخل ہو چکے ہیں۔‘

خواجہ آصف نے دعویٰ کیا کہ گذشتہ ایک سال کے دوران تقریباً 2500 سے 3000 افراد پاکستان میں داخل ہوئے ہیں جو مختلف علاقوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ اب تک مارے جانے والے شدت پسندوں مِں سے تقریباً 55 فیصد افغان شہری تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کابل اس حقیقت کو کیسے جھٹلا سکتا ہے۔

اس سوال پر کہ اب افغانستان کے ساتھ معاملات آگے کیسے بڑھیں گے اور کیا دوبارہ ثالث بیچ میں پڑیں گے؟ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس صلاحیت ہے کہ ہم باآسانی اس معاملے سے نمٹ سکتے ہیں۔ ’لیکن ہم نہیں چاہتے کہ ہم ایک ایسی جنگ میں الجھ جائیں اور ہماری توجہ معاشی بحالی اور عوام کے مسائل سے ہٹی رہے۔‘

اس سوال پر کہیں ماضی کی طرح پاکستان میں ایک بار پھر دہشتگرادنہ حملوں میں تیزی تو نہیں آ جائے گی؟ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’اس وقت پاکستان کی افغانستان میں رسائی نہیں تھی، وہاں نیٹو فورسز بیٹھی ہوئی تھیں اور ہمارے قبائلی علاقوں میں وہ لوگ بیٹھے ہوئے تھے جن کی سرپرستی ہم کر رہے تھے، تو یہ ایک مکمل کنفیوژن تھی۔‘

’موجودہ صورتحال میں کوئی ابہام نہیں ہے، بڑی واضح صورتحال ہے۔‘

وزیرِ دفاع نے دعویٰ کیا کہ کسی جگہ جب ہم شدت پسندوں کو سرحد عبور کرتے ہوئے پکڑتے ہیں تو ان پر حملہ کرتے ہیں۔ ’بعض اوقات ہم ان کا پیچھا کرتے ہوئے افغان حدود کے اندر فزیکیلی اور فضائی طور پر بھی کارروائی کرتے ہیں، اور انشا اللہ آنے والے وقتوں میں ہم اس میں اضافہ کریں گے۔‘

Share this content: