پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے جموں وکشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام بلوچ راجی مچی ( بلوچ قومی اجتماع) کے حوالے سے زوم پر ایک آن لائن آگہی نشست کا انعقاد کیا گیا تھا۔
آگہی نشست کے پہلے سیشن میں بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم )کے مرکزی انفارمیشن و کلچر سیکرٹری قاضی داد محمد ریحان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جبری گمشدگی بین الاقوامی طور پر ایسا تسلیم شدہ جرم ہے کہ ایک فرد کو جبری طور پر گمشدہ کرنا ساری انسانیت کے خلاف جرم ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں مشکور ہوں آپ دوستوں کا۔ ہم آپ کی جدوجہد کی قدر کرتے ہیں. بلوچستان کی صورتحال مختلف ہے،اس پورے ریجن میں، سندھ، کے۔پی۔کے، جموں کشمیر میں مختلف قسم کی صورتحال ہے۔ سب کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے کہ ایک ملک بنا جمہوریت کے وعدے کیے گئے، اسلام کے وعدے کیے گئے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں ہےکہ ہماری جو قوم ہے، آپ لوگ ہیں ہم میں اکثریتی مسلمان ہیں ، تو وعدہ جمہوریت کا تھا، وعدہ اسلام کا تھا۔ لیکن جب پاکستان بنا یہ ساری چیزیں تو دی نہیں۔ اس کے علاؤہ جو ضروری چیز ہوتی ہے انصاف، برابری، آزادی۔ کسی بھی انسان کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس کو آزادی ملے، اس کو انصاف ملے اور برابری ملے۔ پاکستان نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ ایک باہر کا دشمن تھا، دور سے آیا تھا، ان کے ساتھ ہمارا کوئی مذہبی رشتہ نہیں تھا، زمین کا رشتہ نہیں تھا، یعنی ہماری زمین بھی نہیں ملتی تھی۔ لیکن اب تو یہ ہوا کہ ایک ایسا دشمن ہے جو ہم سے رشتے بھی بنانا چاہتا ہے، ہم سے رشتہ داری کا دعویٰ بھی کرتا ہے اور تاریخی طور پر ہمارے رشتے موجود ہیں اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
قاضی داد نے کہاکہ لیکن یہ ایسا دشمن ہے جس کی دشمنی کے نہ کوئی اصول ہیں، نہ کوئی جنگ کے اصول ہیں۔ بلوچوں پر اس ریاست نے بہت ظلم ڈھائے۔ بلوچوں کی اجتماعی نسل کشی کی گئی ہے۔ بلوچوں کو جبری گمشدہ کیا جا رہا ہے۔ یہاں ایک بات بہت ضروری ہے کہ مِسنگ پرسن، میں اکثر دوستوں کو کہتا رہتا ہوں کہ درست لفظ استعمال کیا کریں۔ جبری گمشدگی، جبری گمشدگی اقوامِ متحدہ کے قوانین کے مطابق دنیا بھر میں ایک ایسا جرم ہے کہ جو کسی ایک فرد کے ساتھ نہیں، کسی ایک قوم کے ساتھ نہیں، بلکہ جب کسی ایک فرد کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا جاتا ہے تو یہ مانا جاتا ہے، یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ پوری انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کو سمجھنا چاہیے۔ یہ چھوٹی بات نہیں ہے کہ دنیا میں بہت سارے جرم ہوتے ہیں لوگ قتل کیے جاتے ہیں لیکن جبری گمشدگی بین الاقوامی طور پر انسانیت سوز جرم ہے۔
انہوں کہا کہ بلوچستان میں جو بلوچ یکجہتی کمیٹی کی موجودہ تحریک ہے جس کو آپ اور ہم اس شکل میں دیکھتے ہیں تو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ یہ تحریک بلوچ نیشنل موومنٹ سے تھوڑی ہٹ کر ہے ۔جو لوگ بلوچستان کی قومی آزادی کی بات کرتے ہیں وہ لوگ علحیدہ ہیں ، بلوچ یکجہتی کمیٹی انسانی بنیادوں پر انسانی حقوق کو لیکر یہ تحریک چلا رہی ہے۔ اس کا تھوڑا سا آپکو پس منظر بتاتا ہوں۔
بی این یم رہنما کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں چند سال پہلے کیچ کے علاقے میں ایک واقع ہوا تھا۔ ایک خاتون جن کا نام ملک ناز تھا ان کے گھر پر پاکستانی ڈیتھ سکوارڈ نے حملہ کیا، ہمارے سماج میں جو لوگ جرائم پیشہ ہیں، جو چوریاں اور ڈکیتیاں کرتے ہیں لوگوں کا قتل کرتے ہیں ، جو مسلح ہو کر لوگوں کو ڈراتے ہیں ۔ ان کو اکٹھا کر کہ پاکستانی فوج نے ان کے سر پر ہاتھ رکھا۔ ان کو ہم ڈیتھ سکوارڈ کہتے ہیں کیونکہ یہ لوگوں کو پاکستانی ریاست کی ایما پر قتل کرتے ہیں، مزید تفصیل سے دیکھیں تو ان لوگوں کو پیسے نہیں دیے جاتے بلکہ ان کو جرم کرنے کی آزادی دی جاتی ہے ۔
انہوںنے کہا کہ ان جرائم پیشہ افراد نے رات کے اندھیروں میں سپیڈ بوٹوں(کشتیوں) کے سینکڑوں کی تعداد میں انجن کھول کر چوری کیے جب معملات سامنے آنے لگے تو یہ کام شروع کیا کہ کہیں کوئی بلوچ آزادی پسند ملے اسے پکڑ کر مار دیا اور پھر فوج کے سامنے پیش ہو کر کہا کہ یہ دیکھیں ہم آزادی پسندوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، ہمیں جرائم کی آزادی اور اجازت دی جائے ، ایسے گروہوں کی ریاست نے پشت پناہی کی اور ان کو اوپر لایا، ایسا ہی ایک گروہ ملک ناز کے گھر داخل ہوا، ملک ناز نے مزاحمت کی وہ خاتون لڑی اسے گولی لگی اور وہ شہید ہو گئی اس کی ایک چھ سات سالہ بچی تھی جو زخمی ہو گئی ۔
قاضی داد نے کہا کہ اس کے بعد کیچ میں ایک احتجاج ہوا ، مکران بلوچستان میں مزحمت کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، وہاں لوگ سیاسی شعور، قومی سیاست سے آگہی رکھتے ہیں ۔ ایک واضح فرق یہ ہے کہ بلوچستان کے دیگر علاقوں میں سرداریت جو کہ تاریخی طور پر قبائلی کلچر ہے اس کے حق میں پروپگینڈا کیا گیا کالونیل مقاصد کو سامنے رکھ کر ، لیکن مکران میں کئی سال پہلے عوامی انقلاب کے ذریعے سرداریت کو شکست دی گئی ۔ مکران میں تعلیم کا رجحان ہے، سیاست کا رجحان ہے، تو اس واقع کو لیکر کیچ میں جو مکران کا سینٹر ہے بہت جاندار احتجاج ہوا اہم بات یہ ہے کہ اس بچی کی آواز پر کوہ سلمان کے بلوچ جو ہزاروں کلومیٹر دور ہیں وہ بھی اس آواز اور احتجاج کا حصہ بنے ، اس حادثے نے بلوچوں کو آپس میں بہت قریب کیا ۔
بی این ایم رہنما نے کہا کہ پھر بانو کریمہ بلوچ جو BNM کی ممبر تھی اور آزاد BNSO کی چیئرپرسن راہ چکی تھی کو کنیڈا میں قتل کیا گیا تو براہم کمیٹی بنائی گئی ۔پھر اسکو نئی شکل میں ڈھالا تو بلوچ یکجہتی کمیٹی بنی جس کی ایک نئی شکل سامنے آئی ہے، نئی نسل سے قیادت سامنے آئی خواتین اس کی قیادت کر رہی ہیں ۔ بلوچ سیاست میں انھیں ایک خلا دیا گیا انھوں نے قیادت سنبھالی تو ان کی قیادت کو تسلیم کیا گیا۔ پوری دنیا میں بلوچ تحریک کا ایک نیا رنگ سامنے آیا ۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچ راجی مچی میں بھی ایسا ہی ہے وہ لوگ کوئی ایسی ڈیمانڈ لیکر آگے نہیں بڑھ رہے تھے کہ ہمیں پاکستان سے آزادی چاہیے، بلکہ بہت سادہ مطالبات ہیں کہ ہمیں جینے کا حق دیں، ہمارے لوگوں کو جبری لاپتہ مت کریں ، ہمارے جو وسائل آپ لوٹ رہے ہیں اس لوٹ مار کو بند کریں ، اور سب سے بنیادی بات جس پر بہت زیادہ غصہ پایا جاتا ہے ہم بلوچوں میں وہ یہ ہے کہ ہماری ڈیمو گرافی کو بڑے شاطرانہ طریقے سے تبدیل کیا جا رہا ہے ۔ پاکستان خود کنگال ملک ہے اس کے لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔دوسروں سے پیسے لیتا ہے پھر جنرلوں کرنلوں کے ڈرامے اور جن سے پیسے لیتا ہے ان کو استعمال کرتا ہے۔ چائینہ جو اس وقت ابھرتی ہوئی سامراجی طاقت ہے اس کو ہماری سرزمین پر لا رہا یے ہماری ڈیمو گرافی کو تبدیل کرنے کے لیے ، یہ ہمارئے لیے بہت سنجیدہ مسلہ ہے اور بلوچوں کو نا قابل قبول ہے۔
قاضی داد نے مزید کہا کہ بی این ایم کی جو مسلح جدوجہد ہے اس کا آغاز مکران بلوچستان گوادر سے کیا تھا گوادر میں چائینہ اہلکاروں پر بم بلاسٹ سے اس کا آغاز ہوا تھا ۔ بی این ایف نے اس کی زمہ داری قبول کی تھی ۔ بعد میں قومی آزادی کی تحریک پوری طرح سے ابھر کر آگے بڑھی ہے اور بڑھ رہی ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ جو موجودہ تحریک بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت میں چل رہی ہے یہ حقوق کی تحریک ہے جس میں کوئی سیاسی مطالبات نہیں ہیں ۔ جیسے خیبر پختونخوا میں پشتون تحفظ موومنٹ ہے ان کے بھی سیاسی مطالبات نہیں ہیں۔ لیکن وہاں دیگر سیاسی پارٹیاں پارلیمان کی بات کرتے ہیں ۔ جبکہ بلوچستان میں بی این ایم مکمل آزادی کی جدوجہد کر رہی ہے ، بی این ایم سیاسی پارٹی ہے جس کے مختلف شعبہ جات ، مختلف حصے ہیں جو کل ملا کر قومی آزادی کی جدوجہد کر رہی ہے ۔ بلوچستان میں دوسری بھی کئی سیاسی پارٹیاں ہیں جو آزادی کی مانگ کرتی ہیں۔ یہ ساری صورتحال ہے۔
انہوںنے کہا کہ بلوچ راجی مچی کے حوالے سے سادہ سی بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بلوچ راجی مچی لوگوں کا اجتماع ہوتا لوگ اجتماع کر کہ چلے جاتے اور کچھ بھی نہ ہوتا ۔ لیکن لوگوں پر فائرنگ کی گئی ، لوگوں کو شہید کیا گیا اب تک تین شہیدوں کی اطلاع کنفرم ہے، ان میں مستونگ کی ہماری ایک مستقبل کی لیڈر خاتون شامل ہے جس کو انھوں نے شہید کیا ہے، اسی طرح دو اور لوگ گوادر میں شہید کیے گئے ، گوادر کو مکمل محاصرہ میں لیا گیا ہے ۔ ہم لوگ غزہ کی جو صورتحال میڈیا پر دیکھتے ہیں ، گوادر کی صورتحال غزہ کی اس صورتحال سے بالکل مختلف نہیں ہے۔ گوادر کو مکمل محاصرے میں لیا گیا ہے ۔ لوگوں کو آنے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ بلوچستان کے دیگر دیہاتوں سے لوگ سمندر کے راستے کھانے پینے کی چیزیں پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن انھیں اس کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ ابھی ان کا پانی بھی بند کر دیا گیا ہے۔یہ ساری صورتحال ہے جو میڈیا پر مکمل بلاک آؤٹ ہے۔