کوئٹہ میں نہتے مظاہرین پر فورسز کی فائرنگ سے 3 افراد ہلاک، پورا بلوچستان مکمل بند

 

بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں گذشتہ روزجمعہ کوسریاب روڈ پرجبری گمشدگیوں ، نسل کشی وغیرقانونی گرفتاریوں کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کے پر امن ونہتے مظاہرین پر حکومت بلوچستان اور ریاستی فورسزکی کریک ڈائون اوربراہ راست فائرنگ وشیلنگ سے 3 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے جبکہ 7 کی حالت تشویشناک ہے۔

واقعہ کے بعدمظاہرین نے میتوںکے ساتھ سریاب روڈ پر دھرنا دے دیا ہے اور آج پورا بلوچستان شٹر ڈائون اور پہیہ جام ہڑتال کی وجہ سے مکمل بند ہے ۔موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کا کہنا ہے کہ کوئٹہ کے سریاب روڈ پر اس کے دھرنے کے شرکا پر پولیس کی فائرنگ اور شیلنگ کے نتیجے میں 3 افراد کی ہلاکت ہوئی ہے۔

تاہم بلوچستان حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ احتجاج کرنے والے کے خلاف پولیس نے قانون کے مطابق کارروائی کی ہے جبکہ ’یہ تعین ہونا ابھی باقی ہے کہ مظاہرین کس کی میتیں روڈ پر رکھ کر احتجاج کر رہے ہیں۔‘

میڈیا کو جاری تحریری بیان میں بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے کہا ہے کہ ’شاہراہ کی بندش کے باعث کراچی و دیگر شہروں سے آنے والے مسافر اذیت سے دوچار ہوئے۔ پولیس نے روڑ کھلوانے کے لیے قانون کے مطابق کارروائی کی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ جب تک ’لاشیں ہسپتال لا کر ضابطے کی کارروائی مکمل نہیں کی جاتی وجوہات کا تعین ممکن نہیں۔‘

حکومتی ترجمان کا دعویٰ ہے کہ مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ اور تشدد کیا اور اس دوران ’لیڈی پولیس کانسٹیبل اور پولیس اہلکاروں سمیت دس زخمی افراد ہسپتال لائے گئے۔‘

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 3 افراد ہلاک ہو گئے ہیں جن میں 12 سالہ لڑکا بھی شامل ہے۔

تھانہ سریاب کے سب انسپکٹر عتیق الرحمان نے بی بی سی کو تصدیق کی ہے کہ اس وقت 300 کے قریب مظاہرین سریاب روڈ پر دھرنا دے رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ دھرنے کے مقام پر لاشیں بھی پڑی ہیں۔ انھوں نے تصدیق کی کہ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے شیلنگ کی تاہم فائرنگ کے بارے میں ان کا کہنا تھا ’ایسا کچھ ہمارے علم میں نہیں ہے۔‘

خیال رہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے گذشتہ روز سے سریاب روڈ پر بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے دھرنا دیا جا رہا تھا۔

یہ دھرنا گذشتہ دونوں میں بلوچ یکجہتی کے رہنماؤں کی گرفتاریوں اور مرنے والے افراد کی لاشیں لواحقین کے حوالے نہ کرنے اور شناخت کے لیے نہ لے جانے کے خلاف دیا جا رہا تھا۔

دوسری جانب کوئٹہ کے قمبرانی روڈ پر گرفتار ہونے والے بلوچ افراد کے اہل خانہ جن میں زیادہ تر خواتین ہیں کی جانب سے احتجاج ریلی نکالی گئی تھی۔

ڈاکٹر ماہ رنگ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یونیورسٹی کے سامنے دھرنا جاری تھا کہ دو بجے پولیس کی بھاری نفری آئی۔ انھوں نے شیلنگ کی اور فائرنگ کی جس کے نتیجے میں تین لوگ ہلاک اور تیرہ لوگ زخمی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ زخمی افراد سول ہسپتال کے ٹراما سینٹر میں موجود ہیں۔ تاہم بی بی سی کی جانب سے ہسپتال انتظامیہ سے رابطہ نہیں ہو سکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے دو بجے سے چھ بجے تک آنسو گیس کی شلینگ کی۔

ادھر حکومتی ترجمان نے اپنے بیان میں خبردار کیا ہے کہ امن و امان میں خلل ڈال کر افراتفری پھیلائی جا رہی ہے۔ ’قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، قانون ہاتھ میں لیکر نقص امن کا ارتکاب کیا جائے گا تو حکومت خاموش تماشائی نہیں بن سکتی۔‘

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی جانب سے بلوچستان بھر میں آج شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کے بعد پورا بلوچستان بند ہے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ’آج ریاست پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی کوئٹہ میں پرامن مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کے نتیجے میں اس وقت تک تین پر امن مظاہرین ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔‘

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں انٹرنیٹ کے بعد موبائل فون سروس کو بھی معطل کردیا گیا جس سے لوگ پریشانی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

کوئٹہ میں موبائل فون سروس کی بندش کا آغاز جمعے اور سینیچر کی درمیانی شب ساڑھے 11 بجے کے قریب ہوا جبکہ دوسری جانب جمعرات کو دو بجے کے بعد سے ہی موبائل فون پر انٹرنیٹ سروس کو معطل کر دیا گیا تھا۔

اگرچہ سرکاری حکام کی جانب سے پہلے موبائل فون پر انٹرنیٹ سروس اور اب مکمل طور پر موبائل فون سروس کی بندش کی وجوہات نہیں بتائی گئیں تاہم جمعرات کو موبائل فون پر انٹرنیٹ سروس بلوچ یکجہتی کمیٹی کی یونیورسٹی آف بلوچستان کے سامنے دھرنے سے کچھ پہلے معطل ہوگئی تھی۔

موبائل فون سروس کی بندش کے باعث کوئٹہ شہر میں لوگوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے