جموں کشمیر میں 2 سال دوران 95 ارب خرچ ہونے کے باوجود سڑکیں ناکارہ، 310 افراد ہلاک

مظفرآباد ( کاشگل نیوز سروے رپورٹ)

پاکستان کے زیر انتظام جمون کشمیر میں سنہ 2023 کے مقابلے میں سنہ 2024 میں ٹریفک حادثات کی تعداد میں 6.54 فیصد اضافہ ہوا جبکہ ان حادثات میں اموات کی شرح میں بھی 23.02 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ۔ یہ اعداد و شمار محض چند نمبرز نہیں، بلکہ سینکڑوں تباہ حال خاندانوں کی امیدیں تھیںمگر وہ سب سڑکوں پر دم توڑ گئے۔

ضلع حویلی میں حالیہ المناک کوسٹر حادثہ کمزور حفاظتی دیوار ایک اور سانحے کی وجہ بنی:

16 مارچ کا دن آزاد کشمیر کے ضلع حویلی کے رہائشیوں کیلئے قیامت سے کم نہ تھا۔ ایک مسافر منی بس جو برف اور کہر کے باعث بے قابو ہو گئی، سڑک کے کنارے موجود حفاظتی دیوار (گارڈ ریل) کو توڑ کر سینکڑوں فٹ گہری کھائی میں جا گری۔ دیکھتے ہی دیکھتے پانچ قیمتی جانیں چار مرد اور ایک خاتون ہمیشہ کیلئے دنیا سے رخصت ہو گئے جبکہ 3 افراد شدید زخمی ہو گئے۔

حادثے کی ویڈیو دل دہلا دینے والی ہے۔ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ حفاظتی دیوار اس قدر کمزور تھی کہ وہ بس کے معمولی دباؤ کو بھی برداشت نہ کر سکی اور لمحوں میں ٹوٹ کر بکھر گئی۔

یہ حادثہ حویلی قصبے سے 22 کلومیٹر کے فاصلے پر پرتھاں والی زیارت میں پیش آیایہ ایک ایسا علاقہ جہاں بیشتر سڑکیں حفاظتی رکاوٹوں سے مکمل طور پر محروم ہیں اور جہاں موجود رکاوٹیں بھی انتہائی خستہ حال اور غیر معیاری ہیں۔یہ واقعہ محض ایک المناک حادثہ نہیں بلکہ جموں کشمیر کی سڑکوں پر ہونے والے درجنوں جان لیوا حادثات کی ایک اور بدترین مثال ہے۔

سرکاری اعداد و شمار ایک خوفناک تصویر پیش کر رہے ہیں: جنوری 2023 سے فروری 2025 تک، محض دو سالوں میں، آبادی کے لحاظ سے راولپنڈی ڈسٹرکٹ سے بھی چھوٹے علاقے میں 869 ٹریفک حادثات پیش آئے۔ ان حادثات میں 310 معصوم جانیں ضائع ہوئیں، جبکہ 1607 افراد زخمی ہو گئے۔ ان میں بچے، عورتیں اور مرد سبھی شامل تھے۔

جموں کشمیر کے قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے ایس ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق، رواں سال صرف جنوری اور فروری میں 80 ٹریفک حادثات پیش آئے۔ تاہم، اس رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان حادثات میں کتنے افراد ہلاک یا زخمی ہوئے۔

جموں کشمیر کی ٹریفک پولیس کی رپورٹ چونکا دینے والی ہے۔ اس کے مطابق، سنہ 2024 میں 407 ٹریفک حادثات پیش آئے جس کے نتیجے میں 171 افراد لقمہ اجل بنےجبکہ 802 زخمی ہوئے۔ اگر پچھلے سال کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو سنہ 2023 میں کل 382 ٹریفک حادثات پیش آئے جس کے نتیجے میں 139 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جبکہ 805 افراد زخمی ہوئے تھے۔

جموں کشمیر میں حادثات کی شرح میں اضافے کی وجہ سے پورے علاقے میں گورننس کی کمزوری، سڑکوں کی خستہ حالی، کرپشن، ڈرائیوروں کی لاپروائی، پبلک ٹرانسپورٹ کے ناقص نظام، قوانین کے مؤثر نفاذ کی کمی اور قانون ڈیٹرنس کے طور پر ثابت نہ ہونے پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

سڑکوں کے لیے سالانہ اربوں کا بجٹ:

جموں کشمیر کے رواں سال کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ 330 کلومیٹر مرکزی سڑکوں اور 660 کلومیٹر رابطہ سڑکوں کی تعمیر، بہتری، مرمت اور بلیک ٹاپنگ کے لیے مناسب فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق اس سال کل 49 نئے منصوبے اور 192 جاریہ منصوبے ہیں جن میں 180 رابطہ سڑکوں کے منصوبے ہیں۔

20 اپریل 2023 کو جموں و کشمیر میں چوہدری انوارالحق کی سربراہی میں ایک مخلوط حکومت قائم ہوئی۔جموں کشمیر کے بجٹ دستاویز کے مطابق اس حکومت نے مالی سال 2023-24 میں سڑکوں پر 15 ارب روپے خرچ کیے جبکہ جموں کشمیر کے اکاوٹنٹ جنرل کے آفس کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی سات ماہ (جنوری تک) میں 6 ارب 70 کروڑ روپے سڑکوں کی تعمیر پر خرچ کئے جا چکے ہیں۔

یہ کوئی معمولی رقم نہیں۔ جموں کشمیر کے سالانہ ڈویلپمنٹ پروگرام کے دستاویزات کے مطابق جولائی 2016 سے رواں سال جنوری تک جموں کشمیر کی حکومتوں نے محکمہ تعمیرات و مواصلات کے ذریعے سڑکوں کی تعمیر کے نام پر 95 ارب روپے سے زیادہ خرچ کئے ۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس میں وہ رقم شامل نہیں جو اسی دوران محکمہ لوکل گورنمنٹ اور دیہی ترقی کے ذریعے دیہاتوں میں رابطہ سڑکوں کی تعمیر پر خرچ کی گئی ہے۔ اسی طرح، وہ 68 ملین ڈالر بھی اس میں شامل نہیں ہیں جو ایشیائی ترقیاتی بینک (ای ڈی بی) نے 2014 کے سیلاب کے بعد عالمی معیار کے مطابق 10 سڑکوں اور ایک پل تعمیر کرنے پر خرچ کئے تھے۔

اے ڈی بی کا یہ منصوبہ 2021 میں مکمل ہوا تھا علاوہ ازیں، ان سڑکوں کو بھی شمار نہیں کیا گیا جو حکومتِ پاکستان نے خود تعمیر کیں یا زلزلے کے بعد حکومت پاکستان نے چین سے قرض لے کر مظفرآباد سٹی ڈیوویلپمنٹ کے تحت تعمیر کی گئیں تھیں۔

جموں کشمیر میں کئی لوگوں کی ذہینوں میں یہ سوال ہے کہ اگر جولائی سنہ 2016 سے اب تک جموں کشمیر کی حکومتوں نے 95 ارب روپے کی خطیر رقم سڑکوں کی تعمیر پر خرچ کی تو پھر بھی یہ جان لیوا کیوں بنی ہوئی ہیں؟

سڑکوں کی تعمیر سے پہلے جامع مطالعے کا فقدان؟

آزاد کشمیر میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کی ایک وجہ سڑکوں کا ناقص ڈیزائن بھی ہے۔ مقامی انجینئرز اور تعمیراتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر منصوبوں میں سڑک کے راستے میں تبدیلی مقامی آبادی کی مزاحمت کی وجہ سے کی جاتی ہے۔ کئی دیہاتی اپنی زمینوں سے سڑک گزرنے کی اجازت نہیں دیتےجس کے باعث ڈیزائن میں تبدیلی کرنا پڑتی ہے ۔ نتیجتاً، کہیں سڑکیں بہت زیادہ اونچی ہوتی ہیں، کہیں موڑ انتہائی تنگ ہوتے ہیں، اور کہیں حفاظتی دیواریں نہیں ہوتیں، جو حادثات کا موجب بنتی ہیں۔

بعض پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیورز کا کہنا ہے کئی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ بھی ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود مناسب حفاظتی اقدامات نہیں کیے جاتے۔ان کا کہنا ہے کہ بارش یا برف باری کے دوران یہ راستے نہایت دشوار گزار ہو جاتے ہیں، مگر مجبوری کے تحت گاڑیاں انہی راستوں پر دوڑانی پڑتی ہیں، جو کبھی کبھی جان لیوا ثابت ہو تی ہیں۔

بعض ماہرین کہتے ہیں ” جموں کشمیر میں سڑکوں کی تعمیر سے پہلے کوئی جامع مطالعہ یا پلاننگ نہیں کی جاتی۔ نہ ہی یہ جانچ پڑتال کی جاتی ہے کہ مجوزہ سڑک کسی مقامی شخص کی ذاتی زمین سے تو نہیں گزر رہی، اور نہ ہی یہ دیکھا جاتا ہے کہ جس جگہ سڑک بنائی جا رہی ہے، وہاں لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ تو نہیں ہے۔”

ان کا کہنا ہے کہ یہی نہیں، بلکہ ان منصوبوں میں قدرتی ماحول پر پڑنے والے ممکنہ اثرات کو بھی مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

سڑکوں کے معیار کی ایک وجہ کرپشن بھی ہے۔ ہر سال سڑکوں کی تعمیر کے لیے اربوں روپے مختص کیے جاتے ہیں، مگر جب ان منصوبوں پر عمل درآمد ہوتا ہے، تو کرپشن اور غیر معیاری تعمیراتی مواد کے باعث سڑکیں چند سال میں ہی خستہ حال ہو جاتی ہیں۔ اس نظام کے بارے میں واقفیت رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ تعمیراتی منصوبوں میں بدعنوانی مختلف طریقوں سے کی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض ٹھیکیدار زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے مقررہ معیار سے کم درجے کا تعمیراتی مواد استعمال کرتے ہیں، جو سڑکوں کو جلد خراب کر دیتا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ ٹھیکیداروں کو بل کی منظوری کے لیے بھی سرکاری افسران کو کمیشن دینا پڑتا ہے، جو عام طور پر کل لاگت کا دس فیصد ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، ورک آرڈر جاری کرانے اور ویری ایشن کی منظوری کے لیے بھی الگ سے رشوت دی جاتی ہے، جو سڑکوں کے معیار پر منفی اثر ڈالتی ہے۔

اس تمام کرپشن کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جموں کشمیر میں بننے والی زیادہ تر سڑکیں عالمی معیار کے مطابق نہیں ہوتیں، اور ان پر سفر کرنا ایک مستقل خطرہ بن جاتا ہے۔لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ موجودہ مخلوط حکومت نے ای-ٹنڈرنگ کا نظام متعارف کریا ہے جس کی وجہ سے کسی حد کرپشن کم ہوئی ہے۔

سڑکوں کے خستہ حال ہونے کے ساتھ ساتھ پرانی اور ناقص گاڑیوں کا استعمال بھی حادثات کے خطرے میں اضافہ کر رہا ہے۔ کئی ڈرائیورز اعتراف کرتے ہیں کہ مالی مجبوریوں کی وجہ سے وہ 1980 اور 1990 کی دہائی کے پرانے لوڈرز کو مسافر گاڑیوں میں تبدیل کرتے ہیں فٹنس سرٹیفکیٹ کے بغیر چلا رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ان گاڑیوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ بار بار خراب ہوتی ہیں اور تکنیکی خرابیوں کے باعث کسی بھی وقت حادثے کا شکار ہو سکتی ہیں۔

گاڑیوں کے فٹنس سرٹیفکیٹ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ صرف محفوظ اور تکنیکی طور پر درست گاڑیاں ہی سڑکوں پر چلیں، تاکہ میکانیکی خرابیوں کے سبب ہونے والے حادثات سے بچا جا سکے۔ لیکن جموں کشمیر میں اس نظام پر مکمل عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ چیف موٹر وہیکل ایگزامینر عادل نواز کے مطابق، جموں کشمیر میں کئی ایسی گاڑیاں موجود ہیں جو فٹنس سرٹیفکیٹ اور روٹ پرمٹ کے بغیر سڑکوں پر رواں دواں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر ایسی گاڑیاں مظفرآباد اور پونچھ ڈویژن میں چل رہی ہیں، اور ان میں سے بعض نے ممکنہ طور پر فٹنس سرٹیفکیٹ بھی حاصل کر رکھا ہے۔

انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا” آزاد کشمیر میں فٹنس چیکنگ کا عمل ابھی تک دستی طور پر ہو رہا ہے کیونکہ ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے پاس نہ تو کوئی جدید ورکشاپ ہے، نہ لیبارٹری، اور نہ ہی فٹنس چیکنگ کے لیے درکار جدید سہولیات موجود ہیں۔” ان کا کہنا ہے کہ پورے خطے کے لیے صرف پانچ موٹر وہیکل ایگزامینرز ہیں جو دس اضلاع کے لیے ناکافی ہیں۔

اس کے باوجود حکومت کی جانب سے بہتری کی کوششیں جاری ہیں۔ عادل نواز کے مطابق، پہلی بار گذشتہ سال کے آخر میں آزاد کشمیر میں ٹرانسپورٹ اتھارٹی کا سیکریٹریٹ قائم کیا گیا ہے، اور تینوں ڈویژنز میں موبائل فٹنس لیبارٹریز بنانے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔ مزید پانچ موٹر وہیکل ایگزامینرز کی تعیناتی کا بھی ارادہ بھی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگلے ایک سال میں صورتحال بہتر ہونے کی امید ہے۔

عادل نواز کا کہنا ہے کہ فٹنس سرٹیفکیٹ کے بغیر گاڑی چلانے پر جو معمولی جرمانہ کیا جاتا ہے وہ موثر ثابت نہیں ہو رہا۔ انہوں نے کہا” جب کسی خلاف ورزی پر سزا اتنی کم ہو کہ اس کا کوئی حقیقی اثر نہ ہو تو لوگ دوبارہ وہی عمل دہرانے سے نہیں گھبراتے۔ اسی لیے قوانین میں سخت جرمانے اور سزائیں شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی سے باز رہیں۔”

جموں کشمیر کے وزیر ٹرانسپورٹ جاوید بٹ نے بھی گزشتہ سال ایک نیوز کانفرنس میں اعتراف کیا تھا کہ اکثر افسران بغیر کسی معائنے کے دفتر میں بیٹھ کر ہی فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کر دیتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کی بنیادی وجہ عملے کی کمی ہے، لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ بدعنوانی اور اثر رسوخ بھی اس کی وجوہات ہیں۔

گاڑیوں کے حفاظتی معیار اور بوجھ کی حد کو نظر انداز کرنا، پرانی یا تبدیل شدہ گاڑیوں کو سڑکوں پر چلنے کی اجازت دینا، اور غیر معیاری فٹنس چیکنگ حادثات کے خطرے میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ جموں کشمیر میں فٹنس چیکنگ کے عمل کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، مگر جب تک قوانین کو سخت نہیں کیا جاتا، اور ان پر موثر عمل درآمد یقینی نہیں بنایا جاتا، تب تک صورتحال میں کوئی بڑی بہتری ممکن نہیں ہوگی۔

جموں کشمیر میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں حادثات کی سب سے بڑی وجہ سمجھی جاتی ہیں۔ یہ خلاف ورزیاں کس قدر عام ہیں جس کا اندازہ ٹریفک پولیس کی اس رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صرف سال 2024 کے پہلے گیارہ میں دو لاکھ ترپن ہزار چار سو بہتر چالان جاری کیے گئے۔ ان میں بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکل چلانے، کم عمر ڈرائیورز کے بغیر لائسنس گاڑی چلانے، روٹ پرمٹ کے بغیر گاڑیاں چلانے اور اورلوڈنگ جیسی خلاف وزیاں شامل تھے۔ ان خلاف ورزیوں کے نتیجے میں گیارہ کروڑ پچاس لاکھ چھیاسٹھ ہزار چھ سو تیس روپے کے چالان کیے گئے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ قوانین کی پاسداری نہ ہونے کے باعث حادثات کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔یہ اس بات کا بھی اشارہ کرتی ہے سزا اتنی کم ہے کہ یہ ان خلاف ورزیوں کو روکنے میں ناکام ہے۔

اس خطے میں اکثر گاڑیاں اپنی گنجائش سے زیادہ مسافروں کو بٹھا کر چلائی جاتی ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں خطرناک موڑ اور تنگ راستے ہونے کے باوجود ڈرائیورز تیز رفتاری سے گاڑیاں چلاتے ہیں جس کی وجہ سے حادثات پیش آتے ہیں۔ بعض اوقات نا تجربہ کار یا کم عمر ڈرائیور گاڑیوں کے اسٹیئرنگ سنبھال لیتے ہیں جو نہ صرف اپنی بلکہ دیگر مسافروں کی جانوں کے لیے بھی خطرہ بن جاتے ہیں۔

موٹر سائیکل حادثات بھی اس خطے میں عام ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ٹریفک قوانین پر عمل نہیں کیا جاتا۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ کم عمر بچے بغیر ہیلمٹ کے موٹر سائیکل چلاتے ہیں، دو سے زائد سواریاں بٹھاتے ہیں اور انتہائی تیز رفتاری سے موٹر سائیکل دوڑاتے ہیں۔ یہی بے احتیاطی کئی جان لیوا حادثات کی وجہ بنتی ہے۔

ٹریفک قوانین کے موثر نفاذ کا بھی فقدان ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ٹریفک پولیس کی تعداد انتہائی کم ہے۔ جموں کشمیر ایک وسیع اور پہاڑی خطہ ہے جہاں ہر مقام پر ٹریفک پولیس کی موجودگی ممکن نہیں۔ عمومی رایے یہ ہے کہ لاپروائی، سیاسی دباؤ، سفارش اور بعض اوقات رشوت ٹریفک قوانین کو موثر طریقے سے عملد آمد کروانے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ نتیجتاً، بہت سارے ڈرائیورز بے خوف ہو کر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں، کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ باآسانی بچ نکلیں گے۔بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کے بعد سماجی کارکنوں اور ماہرین نے اس سنگین مسئلے کے حل کے لیے کئی تجاویز پیش کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کو اولین ترجیح دی جانی چاہیے۔ان کے بقول اس میں جدید بسوں کی خریداری، بین الاقوامی حفاظتی معیار کے مطابق سڑکوں کی تعمیر اور موجودہ انفراسٹرکچر کو بہتر بنانا شامل ہے۔ اس کے علاوہ وہ کہتے ہیں کہ قوانین کے نفاذ کو موثر بنانے کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کا باقاعدہ معائنہ ہو اور قوانین کی خلاف ورزی پر سخت جرمانے عائد کیے جا ئیں۔

سماجی کارکنوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ کسی بھی ترقیاتی منصوبے، خاص طور پر سڑکوں کی تعمیر، سے پہلے اس کے حفاظتی پہلوؤں کا جامع جائزہ لیا جانا چاہیے۔ان کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر کی جغرافیائی ساخت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے منصوبے بنائے جائیں جو علاقے کے قدرتی حالات کے مطابق ہوں۔ان کے بقول بنیادی ڈھانچے کی منصوبہ بندی میں مقامی آبادی کو بھی شامل کیا جائے، تاکہ ان کی ضروریات اور مسائل کو بہتر انداز میں سمجھا جا سکے۔

فنڈز کے شفاف استعمال اور جوابدہی کو یقینی بنانے کے لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ پروجیکٹ کی نگرانی کے نظام کو مزید بہتر بنایا جائے اور شفافیت اور دیانت داری کو فروغ دینے کے لیے سڑکوں کی تعمیر کے منصوبوں میں سول سوسائٹی کو شامل کیا جانا چاہیے تاکہ کرپشن اور بدعنوانی کی روک تھام ممکن ہو۔سماجی کارکنوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انسداد بدعنوانی کے قوانین کو مزید سخت کیا جائے، تاکہ ان معاملات کی مکمل چھان بین ہو اور کرپشن میں ملوث افراد کو سزا دی جا سکے۔

کارکن ایک اہم نکتے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہتے ہیں حکام فوری طور پر بین الاقوامی معیار کی حفاظتی دیواریں نصب کریں تاکہ حادثات کو کم کیا جائے اور قیمتی جانوں کا بچایا جاسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے