گلگت بلتستان، جسے دنیا قدرتی حسن، گلیشیئرز، برف پوش پہاڑی سلسلوں، اور دنیا کی بلند ترین چوٹیوں جیسے کے ٹو، راکاپوشی اور نانگا پربت کی وجہ سے جانتی ہے، آج کئی سیاسی، آئینی، اور سماجی سوالات کی زد میں ہے۔ یہ علاقہ نہ صرف سیاحت کا خواب ہے بلکہ پاکستان کے زیرِ انتظام خطہ ہونے کے باوجود مکمل طور پر پاکستان کا آئینی حصہ نہیں، جس کی حیثیت آج تک متنازع ہے۔
یہ خطہ تانبا، سونا، یورینیم، ماربل، قیمتی پتھروں اور دیگر معدنیات سے مالا مال ہے، جو بلاشبہ قدرت کا خزانہ ہے۔ یہی خزانے اور قدرتی ذخائر آج اس خطے کے لیے نعمت کے بجائے ایک آزمائش بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چین، امریکہ، بھارت، حتیٰ کہ روس تک کی نظریں اس خطے پر جمی ہوئی ہیں۔ یہاں موجود معدنیات، پانی کے ذخائر، اور جغرافیائی گزرگاہوں نے اس خوبصورت وادی کو ایک “اسٹریٹیجک ہاٹ اسپاٹ” بنا دیا ہے۔ یہی خدشہ بھی بڑھتا جا رہا ہے کہ کیا یہ خطہ مستقبل میں کسی نئے تصادم یا جنگ کی طرف تو نہیں بڑھ رہا؟
یہی وہ پس منظر ہے جس میں حالیہ لینڈ ریفارمز کا نفاذ کیا گیا، جنہیں مقامی سطح پر متنازع قرار دیا جا رہا ہے۔ عوام کا خدشہ صرف زمینوں کے چھن جانے کا نہیں بلکہ اس پوری پالیسی کے پس منظر میں موجود نیتوں اور مستقبل کی حکمت عملی پر بھی ہے۔
یہ سوال بھی اب شدت سے ابھر رہا ہے کہ آخر ان متنازع لینڈ ریفارمز کے پیچھے اصل محرکات کیا ہیں؟
کیا یہ صرف زمین کے ریکارڈ کو “قانونی شکل” دینے کی کوشش ہے یا پس پردہ کچھ اور عوامل بھی کارفرما ہیں؟
کچھ حلقے سمجھتے ہیں کہ یہ اصلاحات دراصل علاقے میں معدنیات کی تلاش، سی پیک منصوبے کی توسیع، اور اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل علاقوں میں وفاقی کنٹرول کو مضبوط کرنے کی کوشش ہے۔
مقامی سطح پر یہ بھی تاثر پایا جاتا ہے کہ ان زمینوں کو بڑی سرمایہ دار کمپنیوں یا بین الاقوامی مفادات کے لیے خالی کرایا جا رہا ہے، تاکہ مستقبل میں تجارتی، عسکری یا معدنیاتی منصوبوں کے لیے کسی مزاحمت کا سامنا نہ ہو۔
اسی دوران وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ایک بیان میں کہا کہ:
“گلگت بلتستان کے پہاڑوں میں کھربوں روپے کی معدنیات دفن ہیں، جن کی مدد سے ہم قرضے بھی واپس کر سکتے ہیں اور ملکی معیشت کو خود کفیل بنا سکتے ہیں۔”
اس بیان نے نہ صرف معاشی امکانات کو اجاگر کیا بلکہ عوامی سطح پر خدشات کو بھی ہوا دی کہ کہیں یہ خطہ صرف وسائل کے لیے تو استعمال نہیں ہو رہا؟
یہی وجہ ہے کہ حکومت کے اقدامات کے خلاف مقامی عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ گلگت کے مقامی افراد کا ایک بڑا مسئلہ زمینوں پر ریاستی قبضہ ہے۔ تاریخی طور پر “خالصہ سرکار” کے نام پر ہزاروں کنال اراضی کو سرکاری ملکیت قرار دیا گیا، جس پر مقامی لوگ نسلی، تاریخی اور خاندانی دعویٰ رکھتے ہیں۔
پُرامن مظاہروں کے باوجود متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا، جس نے عوامی غم و غصے کو مزید بھڑکایا۔
احتجاج میں شامل افراد کا کہنا ہے کہ حکومت مقامی زمینوں پر غیر قانونی قبضے کو قانون کا نام دے کر اصل مالکان کو بے دخل کر رہی ہے۔
یہ سب کچھ ایک تاریخی و قانونی سیاق میں سمجھنا ضروری ہے، جو “معاہدہ کراچی” (1949) سے جڑا ہے۔ اس معاہدے کے تحت آزاد حکومتِ ریاست جموں و کشمیر نے گلگت بلتستان کا انتظام پاکستان کے حوالے کر دیا، لیکن نہ جموں کشمیر کے عوام کی مشاورت سے اور نہ ہی گلگت کے عوام کی رضا سے۔
ناقدین کے مطابق یہ معاہدہ آزاد حکومت کی مجبوری، مفاد پرستی یا سیاسی دباو کا نتیجہ تھا۔ گلگت کے عوام کو نہ آئینی حقوق ملے اور نہ ہی مکمل صوبائی درجہ — یہ آج بھی ایک ‘غیر واضح حیثیت’ کے ساتھ پاکستان کے ماتحت چل رہا ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ معاہدہ کرنے والے نہ جموں کشمیر کے عوام کے نمائندے تھے، نہ ہی گلگت کے ترجمان۔ یہ وہ سیاسی دلال تھے جو نہ صرف اس وقت دھرتی کے سوداگر بنے بلکہ آج بھی ایسے کردار موجود ہیں جو ذاتی مفاد یا بیرونی ایجنڈوں کے تحت دھرتی ماں کو بیچنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔
ایک اور سنگین معاملہ گلگت بلتستان اور جموں کشمیر کے عوام کے درمیان پیدا ہونے والا فکری و سیاسی فاصلہ ہے۔ آج گلگت کے عوام، ماسوائے چند سیاسی اور فکری طبقات کے، خود کو جموں کشمیر کے تناظر میں دیکھنے کو تیار نہیں۔
یہ ایک فطری ردِعمل بھی ہے، کیوں کہ جب گلگت کے عوام کو نہ جموں کشمیر کی قیادت نے اپنایا، نہ پاکستانی ریاست نے ان کے حقوق دیے، تو وہ کیوں کر خود کو کسی کا حصہ محسوس کریں گے؟
یہ فاصلہ کیا کبھی ختم ہو پائے گا؟
کیا ان زخموں پر کبھی مرہم رکھا جا سکے گا؟
یا یہ دراڑیں مزید گہری ہو کر خطے کو ٹکڑوں میں بانٹ دیں گی؟
اس تمام صورت حال میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کہیں یہ خوبصورت خطہ بھی جموں کشمیر جیسی ناانصافیوں، مفادات کی سیاست، اور بے حسی کا شکار تو نہیں ہو جائے گا؟
کیا یہاں بھی وہی تاریخ دہرائی جائے گی جو جموں کشمیر میں لکھی گئی؟
اگر حالات نہ سنبھالے گئے، تو گلگت کا انجام بھی وہی ہو سکتا ہے جو جموں کشمیر کے مقدر میں لکھ دیا گیا تھا۔
گلگت بلتستان میں بڑھتی ہوئی بے چینی، سیاسی غیر یقینی، اور وسائل کی دوڑ نے علاقے کو ایک نئی سطح پر لا کھڑا کیا ہے۔ جموں کشمیر کے ساتھ جڑی ہوئی متنازع حیثیت، معاہدہ کراچی کی خاموشی، اور عوامی حقوق کی مسلسل پامالی — یہ سب ایک بڑے بحران کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
آج جب ہم جموں کشمیر اور فلسطین جیسے خطوں میں انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، تو گلگت بلتستان کو نظرانداز کرنا ایک تاریخی غلطی ہو گی۔
اس علاقے کی خوبصورتی، اہمیت اور قربانیاں قابلِ فخر ہیں،
یہ علاقہ پہلے ہی بہت کچھ سہہ چکا ہے — خاموشی، استحصال اور وعدوں کے بوجھ تلے۔
اس کی خوبصورتی، اہمیت اور قربانیاں قابلِ فخر ہیں، مگر سوال یہ ہے:
کیا گلگت کے باسی صرف قدرتی وسائل کا ذریعہ ہیں یا برابر کے انسان اور شہری بھی؟
یہ سوال ہر اہلِ ضمیر پاکستانی، ہر جموں کشمیری، اور ہر صحافی کے لیے ہے۔
گلگت کی پہاڑیاں آج صرف برف کی نہیں، سوالوں کی چادر اوڑھے کھڑی ہیں۔
٭٭٭