رزلٹ طلبہ کا آیا یا نظام کا؟۔۔۔ مقدس گیلانی

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں آج ایک حیران کن نوٹیفکیشن منظرِ عام پر آیا جس میں میرپور بورڈ کے ملازمین کو بہترین رزلٹ جاری کرنے پر ایک مہینے کی تنخواہ انعام میں دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔

حکومتی مؤقف یہ ہے کہ میرپور بورڈ نے اس سال بہترین کارکردگی دکھائی ہےلیکن عوامی حلقوں میں اس اعلان نے مزید سوالات کو جنم دیا ہے کیونکہ رزلٹ کے فوراً بعد پورے کشمیر میں جوصورتحال دیکھی گئی اس نے اس بہترین کارکردگی کی کلی کھول دی ہے۔

رزلٹ کا پس منظر:

میرپور بورڈ نے انٹرمیڈیٹ پارٹ 1 کے امتحانات کا رزلٹ کئی ہفتوں کی تاخیر کے بعد جاری کیا۔ 44 ہزار سے زائد طلباء میں سے اکثر کے نمبرز غیر معمولی حد تک کم آئے۔ ای مارکنگ کا نیا نظام بغیر تربیت اور بغیر مکمل تیاری کے نافذ کیا گیا، جس پر والدین، اساتذہ اور طلباء نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

کئی ایسے طالب علم جن کی سابقہ کارکردگی نمایاں رہی تھی اچانک فیل قرار پائے۔ یہی نہیں بلکہ 83 پرائیویٹ کامرس امیدواروں میں سے صرف 4 نے پاسنگ مارکس حاصل کیےجو بذات خود ایک بڑا سوال ہے۔

تاخیر اور کمزور رزلٹ کے اثرات محض نمبروں تک محدود نہیں رہے۔ جہلم ویلی میں دو افسوسناک واقعات پیش آئے جنہوں نے پورے کشمیر کو سوگوار کر دیا۔

پہلا واقعہ:

گورنمنٹ بوائز ہائی سکول شاریاں کا سابقہ میٹرک ٹاپر 17 سالہ سید حبیب صابر، جو ہمیشہ بہترین کارکردگی کا حامل رہا، کمپیوٹر کے مضمون میں کم نمبر آنے کے بعد شدید ذہنی دباؤ میں مبتلا ہوا۔اور وہ اپنے گھر کے قریب درخت سے لٹکا ہوا ملااپنی سرگرم زندگی اور خوابوں کو قبر میں اتارتے ہوئے۔

دوسرا واقعہ:

جہلم ویلی میں ہی ایک اور نوجوان نے نمبرزکم آنے پر دریا میں چھلانگ لگا دی۔ اسے بچانے کی کوشش میں اس کا بھائی بھی تیز دھار پانیوں کے رحم و کرم پر چلا گیا۔ دونوں بھائیوں کی لاشیں دریا جہلم سے برآمد ہوئیں۔دو گھر ہمیشہ کے لیے تاریک ہو گئے۔

یہ وہ غم ہیں جو کسی پریس ریلیزوں میں نہیں چھپ سکتے ہیں۔دنیا ڈیجیٹلائزیشن کی طرف بڑھ رہی ہے، لیکن وہاں جہاں نظام مضبوط، تربیت مکمل اور نگرانی شفاف ہو۔ہمارے ہاں ای مارکنگ کا پہلا تجربہ ایسا ثابت ہوا کہ ہزاروں طلباء مؤثر طریقے سے متاثر ہوئے۔

شکایات بھی کی جن میں پیپر چیکنگ میں تکنیکی خرابیاں،مارکنگ سافٹ ویئر کا غلط ریڈنگ،اساتذہ کی تربیت نہ ہونا،ای مارکنگ شیٹس کا درست سکین نہ ہونا۔

دوبارہ چیکنگ کے نظام کی عدم موجودگی طلباء کا احتجاج کے دوران یہ بھی کہنا تھاکہ ہماری ایک سال کی محنت چند تکنیکی غلطیوں کی نذر کر دی گئی۔جب یہ سب کچھ سامنے آ چکا ہو، ایسے میں بورڈ ملازمین کو انعام سے نوازنے کا اعلان عام شہریوں کے لیے ایک سوال بن کر سامنے آیا ہے۔کیا یہ انعام اُن والدین کے زخموں پر نمک پاشی نہیں جنہوں نے اپنے بچوں کو نوجوانی کی بہار میں کھو دیا؟

اصل مسئلہ نمبر نہیں… نفسیاتی دباؤ ہے:

ہمارا تعلیمی نظام نمبروں کو کامیابی اور ناکامی کا معیار بنا چکا ہے۔سوشل میڈیا مقابلے کی آگ میں مزید تیل کا کام کرتا ہے۔والدین اساتذہ اور معاشرہ صرف نمبرکی دوڑ میں ایسے الجھ چکا ہے کہ بچے کی ذہنی صحت جو سب سے اہم معاملہ ہے، وہ کہیں پیچھے رہ گئی ہے۔ہمیں سمجھنا ہوگا کہ:

ایک نمبر کم، زندگی سے زیادہ اہم نہیں ہر طالب علم کی اپنی رفتار ہوتی ہےناکامی ایک مرحلہ ہے، انجام نہیں۔نظام کی غلطی کا بوجھ بچے کے کندھوں پر نہیں ڈالنا چاہیے۔

آخر میں ایک سوال ہم کب سمجھیں گے کہ بچے نمبر نہیں،احساسات، خواب، مستقبل اور امانت ہوتے ہیں؟اور ایک نظام جو اپنے بچوں کی زندگیوں کو محفوظ نہ کر سکے، وہ کیسا نظام ہے؟

٭٭٭

Share this content: