( پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے تناظر میں ایک مختصر تقابلی جائزہ )
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کی سیاست اس وقت ایک غیر معمولی تبدیلی سے گزر رہی ہے۔ یہاں کی پارلیمانی جماعتیں برسوں سے سیاست اور اقتدار کی روایتی گاڑی چلاتی آئی ہیں۔ انتخابی عمل، حکومت سازی اور اپوزیشن کی سیاست انہی کے ہاتھ میں رہی ہے۔ مگر عوامی توقعات اور ان جماعتوں کی کارکردگی کے درمیان فاصلہ بڑھتا گیا۔ یہی بڑھتا ہوا خلا بالآخر ایک ایسی عوامی مزاحمتی آواز کی طرف بڑھا، جس نے جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی شکل اختیار کی۔
پارلیمانی جماعتوں کی سیاست حلقہ جاتی ترجیحات، شخصی اثر رسوخ اور روایتی مفاداتی نظام پر قائم ہے۔ ان کا انحصار اکثر اقتدار کے توازن اور پاکستان کے سیاسی اثرات پر رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی مسائل کئی بار ان کے منشور اور ایجنڈوں میں شامل ہونے کے باوجود عملی طور پر پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ دوسری طرف عوام اب صرف ووٹر نہیں رہے، وہ باخبر ہیں اور اپنے حق کے بارے میں سوال بھی کر رہے ہیں۔
یہیں سے عوامی ایکشن کمیٹی نے جگہ بنائی۔ یہ کوئی روایتی یا نظریاتی پارٹی نہیں، بلکہ مطالباتی تحریک ہے۔ اس کا ایجنڈا سیدھا اور زمینی حقیقت پر مبنی ہے، مہنگی بجلی کا بوجھ کم ہو، ٹیکس منصفانہ ہوں، اور وسائل سے فائدہ مقامی عوام کو ملے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو ہر شہری کے روزمرہ سے جڑے ہوئے ہیں اور یہی وہ نکتہ ہے جس نے عوام کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عوام نے پہلی بار محسوس کیا کہ ان کی آواز مؤثر اور فیصلہ کن ہو سکتی ہے۔
اختیارات کی تقسیم کے تناظر میں دیکھا جائے تو پارلیمانی جماعتیں نظام کے اندر رہ کر فیصلوں کا حصہ بنتی ہیں، جب کہ عوامی ایکشن کمیٹی نظام پر دباؤ ڈال کر اصلاحات کی کوشش کرتی ہے۔ ایک طرف قانونی و حکومتی مشینری کی طاقت ہے، تو دوسری طرف عوامی دباؤ اور اخلاقی جواز کی طاقت۔ دونوں کا وجود اپنی جگہ اہم ہے، اور کسی ایک کا انکار دوسرے کو بھی کمزور کرتا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ جماعتیں اکثر مصلحتوں کا شکار ہوتی ہیں جبکہ عوامی تحریک جذباتی توانائی سے چلتی ہے۔
اس سب کے باوجود دونوں کی کچھ کمزوریاں بھی ہیں۔ سیاسی جماعتوں پر یہ تنقید رہی ہے کہ وہ عوامی نمائندگی کے باوجود مفادات کے بوجھ تلے دب جاتی ہیں اور حقیقی اصلاحات سے دور رہتی ہیں۔ جب کہ عوامی ایکشن کمیٹی سے یہ سوال جڑا ہے کہ کیا وہ احتجاجی سیاست کے ساتھ ساتھ مستقبل کا کوئی منظم اور پائیدار پروگرام بھی پیش کر سکے گی؟ کیا جذباتی اتحاد کے بجائے مستحکم سیاسی بصیرت اور ادارہ جاتی ڈھانچہ قائم کیا جا سکے گا؟ یہ وہ آزمائشیں ہیں جو وقت کے ساتھ واضح ہوں گی۔
ریاستی سطح پر بھی چیلنج کم نہیں۔ حکومتی اور انتظامی اداروں کے لیے یہ صورتحال ایک الارم ہے کہ عوام اب خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ وہ سوال بھی کریں گے اور ضرورت پڑی تو مؤثر انداز میں احتجاج بھی۔ اگر حکومتی رویہ اصلاح کی جانب ہوا تو یہی عوامی قوت مثبت تبدیلی کا ذریعہ بنے گی۔ لیکن اگر فاصلہ بڑھا تو کشیدگی محض سیاسی نہیں رہے گی بلکہ سماجی عدم استحکام کا خطرہ پیدا کر دے گی۔
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے اس خطے کی سیاست میں یہ تبدیلی کسی نظریاتی جنگ کا نتیجہ نہیں، بلکہ عوام کے بنیادی حقوق کی جدوجہد ہے۔ یہ عمل بتا رہا ہے کہ سیاست کا محور بدل چکا ہے۔ اب سیاست اقتدار کے مرکزوں سے نکل کر عوام کے درمیان منتقل ہو رہی ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ جذباتی نعروں کا زمانہ گزر رہا ہے اور اب عمل اور نتیجہ ہی سیاست کی کامیابی کے معیار ہوں گے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ صورتحال نہ کسی جماعت کی شکست ہے نہ کسی تحریک کی مکمل فتح۔ اصل اہمیت تبدیلی کے اس رجحان کی ہے جسے روکنا کسی کے بس میں نہیں۔ عوام نے یہ فیصلہ دے دیا ہے کہ اقتدار اگر ان کے مسائل حل نہیں کرتا تو اس اقتدار کی حیثیت چیلنج کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔ یہی وہ نیا سیاسی شعور ہے جو مستقبل کی سمت طے کرے گا۔ یہ تبدیلی خوش آئند ہے کیونکہ جمہوریت کا حقیقی مقصد یہی ہے کہ شہری اپنے حق کے لیے آواز اٹھائیں اور وہ آواز فیصلوں تک پہنچے۔
اس چھوٹے سے خطے کے باشعور عوام نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ صرف ووٹ ڈالنے کا حق نہیں رکھتے، بلکہ وہ سیاسی سمت کے تعین میں بنیادی کردار بھی ادا کر سکتے ہیں۔ سیاست اب ایوانوں کی بند دیواروں تک محدود نہیں رہی۔ یہ عوام کے درمیان جا پہنچی ہے اور جب سیاست عوام کے پاس پہنچ جائے تو تبدیلی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ عوامی حق کا تحفظ ہی اصل قیادت اور اصل سیاست ہے اور یہی غیر جانبدار حقیقت ہے۔
٭٭٭
Share this content:


