مظفرآباد/کاشگل نیوز
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں نیشنل عوامی پارٹی کے سابق صدر لیاقت حیات نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں متوقع اٹھائیسویں آئینی ترمیم اور نۓ صوبوں کی بحث نے آزاد کشمیر کے آئینی تشخص کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر احسن اقبال کی جانب سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو این ایف سی ایوارڈ میں نمائندگی دینے کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ آزاد کشمیر کو ’’عارضی صوبہ‘‘ بنانے کی کوشش کی جا سکتی ہے، جو اہلِ کشمیر کے لیے کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔
لیاقت حیات نے مظفرآباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آزاد کشمیر کا رشتہ پاکستان کے ساتھ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 257 کے تحت ہے، جس میں واضح ہے کہ ریاستِ جموں و کشمیر کا مستقبل کشمیری عوام طے کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے اور اس کا فیصلہ کسی صورت بھارت یا پاکستان کو یکطرفہ طور پر کرنے کا اختیار نہیں۔
انہوں نے آزاد کشمیر کی موجودہ سیاسی صورتِ حال پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں ’’حقِ حکمرانی‘‘ موجود نہیں، وزرائے اعظم پرچیوں کے ذریعے بنائے اور ہٹائے جاتے ہیں جبکہ سیاسی جماعتوں کی حالت ’’فرنچائزز‘‘ سے بھی بدتر ہو چکی ہے۔
لیاقت حیات نے کہا کہ موجودہ بحران کا واحد حل آئینِ ایکٹ 74 کا مکمل خاتمہ اور معاہدۂ کراچی کو منسوخ کر کے ایک خودمختار آئین ساز اسمبلی کا قیام ہے، تاکہ آزاد کشمیر پاکستان کے ساتھ ایک نیا، باہمی رضامندی پر مبنی ’’معاہدۂ عمرانی‘‘ تشکیل دے سکے۔
انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر میں جاری موجودہ عوامی تحریک مزید مضبوط ہو گی اور عوام اپنی حقِ ملکیت اور حقِ حکمرانی کی بحالی تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔ ’’یہ خطے کے فیصلے ہم خود کریں گے، باہر سے کوئی مسلط نہیں کرے گا۔‘‘
Share this content:


