سیاسی کارکنان میں بے یقینی، مایوسیاں اور مزاحمت ۔۔۔۔ حبیب الرحمن

چار سو مسلسل سیاسی مایوسی سماج میں سکوت اور جمود کی نہ صرف شکاتیں کی جاتی ہیں بلکہ بے دلی بے یقینی کیساتھ ایسی تصویر کشی کی جاتی ہے کہ جیسے سب کچھ نیست و نابود ہو چکا ہے اور آگے بڑھنے کے سارے راستے بند ہو چکے ہیں۔یہ سنتے اور دیکھتے ہوئے سب کچھ سچ لگنے لگتا ہے کہ آج کی حالت دیکھیں تو لگ بھگ 100 سال پہلے کا سماج سیاسی طور پر ایک انچ بھی آگے بڑھتا نظر نہیں آتا ۔باوجود اس کے کہ مواصلاتی ذرائع پہلے سے زیادہ ترقی یافتہ ہو گئے ہیں پڑھنا لکھنا زیادہ سیکھ لیا گیا ہے لیکن اس سب کے اثرات وہ نہیں ہیں جو ہونے چاہیے تھے ۔یوں لگتا ہے کہ تعداد معیار میں ڈھلنا بھول گئی ہے۔بظاہر بہتر نظر آنے والی ترقی ذہنی پسماندگی،ابتری اور درماندگی نہ صرف سبب بنتی نظر آ رہی ہے بلکہ اس کو دوام بخشنے کا ایک موثر ہتھیار بن گئی ہے۔

جو لوگ سماجی تبدیلی اور ترقی کی راہ کو ہموار کرنے کی جدوجہد کرتے کرتے کھپ گئے وہ تو امر ہو گئے خواہ وہ نامور لوگ تھے یا گمنام سپاہی۔

اور بہت سارے ایسے بھی ہیں جو اس بھاری پتھر کو ہٹانے یا ہلانے میں نا کام ہو کر دل چھوڑ گئے دشمنوں کی صف میں چلے گئے یا کسی گمنام کونے میں دبھک کر بیٹھ گئے اس طرح کی مایوسی تو سمجھ آتی ہے۔مگر وہ سخت جان لوگ جو جدوجہد کے اس قلعہ کو ابھی خالی نہیں کر رہے تو وہ بہت ہی معتبر لوگ ہیں ان کی طرف سے مایوسی اور امید سے مغلوب گفتگو یک دم مسترد نہیں کی جا سکتی چونکہ ان کی باتیں مورچے کے اندر سے آتی ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ مالک مکان بول رہا ہے ابھی ملکیت سے دستبردار نہیں ہوا یہی سفر کے راہی کا سچ ہوتا ہے۔

تاریخ میں انسانی سماج کے خیر خواہ اور حوصلہ مند لوگ آج ہی نہیں بلکہ گزرے ہر عہد میں موجود رہے ہیں انھوں نے خون ضرور تھوکا ہے لیکن ہارے نہیں وہ معاشرے کی بڑی خاموش اور کمزور پرتوں کو نہ صرف طاقت ور کرنا چاہتے تھے بلکہ اگوانی کے مرتبے پر فائز کرنا چاہتے تھے جن کو حکمران قابض گروہ نے ریاست اور سیاست سے خارج کر رکھا تھا۔

کیا وہ سب کامیاب ہوئے؟ کیا انھوں نے اپنی زندگی میں اپنی تعلیمات کو ثمر آور ہوتے دیکھا؟ اس سب کا جواب یہ ہے کہ نہیں۔ وہ یہ سب نہیں دیکھ سکے۔ ان میں سے کچھ صلیب چڑھے، کسی نے خود کی مذاق اور تذلیل برداشت کر لی اور کسی نے زہر پی لیا، کوئی زندہ جل گیا اور کچھ ہزہیمت اور ذلت کی پوشاک میں لپیٹے گئے۔ لیکن یہ سب کچھ شاید سارے وقت کے لیے نہیں تھا کہ کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد ان کو سچ تسلیم کر لیا گیا یوں سمتیں درست کر لی گئیں۔

سماج ایک رام کیا ہوا گھوڑا تو نہیں ہوتا کہ چابک لہرائی اور چل پڑے۔ سماج تہہ در تہہ پیچیدگیوں کا ایک پورا سلسلہ ہوتا ہے یہ تب متحرک ہوتا ہے جب ضرورتوں کا آہنگ ان کی آرزوؤں میں ڈھل جاتا ہے۔ دوسری صورت میں ایک لمبی اور گہری خاموشی چھائی رہتی محسوس ہوتی ہے۔

گزرے 100 سال سے "منافع” ایک بھوت کی شکل میں خون کے پیاسے اپنے دیوتاوں سے مل کر سماج کے تمام متحرک حصوں اور آوازوں پہ مسلسل حملہ آور ہے۔ لیکن یونانی دیوتا کے سزا یافتہ پرومیتھیوس کی طرح جسم سے گوشت نوچے جانے کے باوجود دوسری صبح پھر تازہ دم نئے جسم کے ساتھ انکار کی سولی پہ لٹک جاتے ہیں۔ ان میں وہ انقلابی اور مزاحمت کار بھی ہیں جو یوں لڑے کہ نہ ان کو قبر میسر ہوئی اور نہ ہی کوئی یادگاری کتبہ۔ اور ان میں وہ بھی شامل ہیں جو قلم وقرطاس پر جمے ٹی بی تھوکتے تھوکتے زندگیاں گزار گئے لیکن وہ تبدیلی نہ آ سکی۔ اپنے دیکھے خواب کی تکمیل کے لیے وہ جان ہار گئے لیکن نیلی پیلی پوشاکوں میں ملبوس گِدھ انہیں مسلسل نوچ رہے ہیں۔ جو مختلف شکلوں میں قبضہ گیری کے شکنجے کستے رہتے ہیں۔ اور کچھ تو بالکل نامعلوم شکل و صورت میں سماج کو لوریاں دیتے ہیں۔ اقتدار والے اپنے اجداد کی وراثت کی طرح۔

تبدیلی چاہنے والے ان سدا بہار جملوں کی زد میں رہتے ہیں جو بے توقیری، تذلیل سے گزرتے ہوئے غداری تک کی منزل پہ فائز کیے جاتے ہیں۔ لیکن کیا سچ بولنا چھوڑ دیا جائے؟ آزاد وطن اور انصاف والے سماج کے لیے تگ و دو کو ترک کر دیا جائے؟ تاریخ کے اس سچے کارواں سے علحیدگی اختیار کر لی جائے؟ ایسا کرنا سائنسی طور پہ بھی غلط ہے، انسانی وقار کے بھی خلاف ہے، زخم پر ماتم کرتے رہنا اور کچھ نہ کرنا ضمیر کی توہین ہے۔

ایسی صورت میں دو ہی راستے بچتے ہیں۔ ایک یہ کہ آدرش پہ قائم رہنا اور دوسرا قول و فعل کو سماجی صورتحال سے ہم آہنگ ہو کر آگے بڑھنا۔

مختلف تحریکوں اور سماجی تبدیلیوں کی مثالیں وافر مقدار میں دی جاتی ہیں جو کہ ایک اچھا عمل ہے۔ لیکن سمجھنا اور یاد رکھنا ازحد ضروری ہے کہ مختلف ملکوں کی سیاست اور تحریکیں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ انقلاب ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہونے کے باوجود بہت مختلف ہوتے ہیں۔ ہر انقلاب اور تبدیلی کا اپنا مزاج اور خدو خال ہوتا ہیں ۔ ہر انقلاب کے راستے اپنے اپنے ہوتے ہیں جو اپنے اپنے واقعات سے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔

جنوبی ایشیا کے معاشرے ایک عجیب اور دلچسپ عوامی مرحلوں سے گزر رہے ہیں جہاں پہ ماضی کی کٹر بند سوچوں کو بڑی احتیاط سے مسلط کر کے تبدیلی کے راستے بند کر دیے گئے۔ نئے خیالات اور سوچوں کو بند کر دیا گیا۔جس کی ایک جیتی جاگتی اذیت میں ڈوبی ریاست جموں کشمیر کی بے توقیری کی مثال سوالیہ نشان کے طور پر موجود ہے۔ خاص طور پر ریاست کا وہ حصہ جو ریاست مدینہ (پاکستان) کے قبضے میں ہے۔ جس کو نہ صرف گونگا کر دیا گیا، بلکہ بہرہ بھی کر دیا گیا۔

غیر سیاسی اور نہ دیکھائی دینے والی قوتوں نے ہوس قبضہ گیری میں سارا سیاسی عمل تباہ کر دیا عوام کی سب سے بڑی طاقت سیاسی پارٹی ہوتی ہے جو عوام کی خواہشات آرزوں امنگوں کی ترجمانی کرتی ہے اس لیے اس پارٹی کے تصور اس کے بننے منظم ہونے اور سیاسی عمل اختیار کرنے کی راہیں بند کر کہ غیر سیاسی بندوق کی مداخلت تسلسل سے جاری ہے ۔ فرسودگی اور تعبیداری کو مستقل مسلط رکھنے کے لیے فسطائیت کی ہر طرز کی شاخ تراشی کی جاتی ہے جس سے حکمت و دانش کی نمو بارود میں ڈوب جاتی ہے ایسی صورت میں مایوسی فطری بات ہے جس کا تزکرہ اہل دانش اور سیاسی کارکنوں سے اکثر سننے کو ملتا ہے۔

لیکن ایک بات بھولنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کہ ارتقاء یا تبدیلی ایک معاشرتی اظہار ہے جس کی داخلی ساخت ایسی ہی ہوتی ہے لیکن تبدیلی کی خوشبو نے پھیلنا ہی ہوتا ہے جس کا ایک راستہ بند کرو تو دوسرا پھوٹ پڑتا ہے جب معروف اور روایتی راستے بند کیے جائیں تو وہ غیر روایتی راستے اختیار کر لیتی ہے کم از کم ریاست جموں کشمیر کا یہ حصہ اسی غیر روایتی راستے کو اختیار کر جائے گا اور یہ غیر روایتی راستہ غیر متوقع ترین واقعات برپا کر جائے گا جس سے وہ لوگ بھی حیران راہ جائیں گے جو اس تبدیلی کی کوشش کرتے رہے ہیں اور یہ کوئی نہیں جانتا کہ کون سی ایک چھوٹی سی چنگاری کب آتش فشاں بن جائے جس کی طاقت صرف عوام ہیں جو آپ کی یا میری فرمائش پر نہیں اپنی ضرورت کے مطابق کریں گے آپ نے اور میں نے صرف ان کے ساتھ کھڑا رہنا ہے اور اس کی دوسری شرط انقلابی سیاسی پارٹی کی مضبوطی ہے جس کو منظم اور مضبوط کرنا دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کا اولین فریضہ ہے جو جبر کے اس ماحول سے آزادی کا سفر جاری رکھیں گے۔

گو کہ مایوسی کی ایک لمبی چادر بچھی نظر آتی ہے جو اپنی جگہ پر درست ہے لیکن سماج کے جدلیاتی قوانین ہمارے مزاجوں کے اتار چڑھائو کے نہ تو محتاج ہیں اور نہ ہی پابند بلکہ یہ جاری رہتے ہیں ہمیں بس ان تبدیلیوں کے ساتھ عوام الناس کو سارے اوزاروں سے لیس کرنا ہے جو ذلتوں بھری اس زندگی کو نجات دلا سکیں۔