آزاد جموں و کشمیر میں پیش آنے والے غیرمعمولی اور سنگین واقعات — ماضی میں جیل توڑ کر قیدیوں کا فرار، مسلح گروہوں کی اچانک فعالیت، سرِعام اسلحہ کی نمائش اور پھر دہشت گردی کی واردات — نہ صرف مقامی عوام بلکہ قومی سطح پر بھی تشویش کی ایک نئی لہر پیدا کر چکے ہیں۔
یہ سوال اب شدت سے اٹھ رہا ہے کہ آیا یہ تمام واقعات محض اتفاق ہیں یا ان کے پیچھے کوئی گہری سازش پنہاں ہے؟ کیا آزاد جموں و کشمیر جیسے حساس خطے میں کسی مخصوص ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کی تیاری ہو رہی ہے؟ اور کیا یہ ماضی کی اُس خطرناک روایت کا تسلسل نہیں جس میں عوامی تحریکوں کو کمزور کرنے، خطے کو بدنام کرنے، اور طاقت کے استعمال کو جائز ثابت کرنے کے لیے فتنہ پروری کی گئی؟
یاد رکھنا چاہیے کہ آزاد جموں و کشمیر ایک تاریخی، متنازع اور جغرافیائی لحاظ سے نہایت نازک خطہ ہے۔ اس خطے میں ماضی میں کئی بار ریاستی بیانیے، پراکسی وارز، اور مسلح تنظیموں کو ایک مخصوص مقصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ پہلگام، شوپیاں اور کپواڑہ جیسے علاقوں میں یہی اسکرپٹ پہلے بھی دیکھا گیا — دہشت گردی کے واقعات، فیک انکاؤنٹرز، اور خفیہ نیٹ ورکس کے ذریعے اصل تحریکِ آزادی کو بدنام کر کے اسے عالمی سطح پر شدت پسندی سے جوڑا گیا، تاکہ حقِ خود ارادیت کی جدوجہد کو دہشت گردی کے پردے میں چھپا دیا جائے۔
اب اگر یہی منظرنامہ آزادکشمیر میں ترتیب دیا جا رہا ہے تو یہ صرف ایک سیکیورٹی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سیاسی اور نظریاتی چال بھی ہو سکتی ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب عوام مہنگائی، بدانتظامی اور ناانصافی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، اور ریاستی پالیسیوں پر سوالات اٹھا رہے ہیں — ایسے میں اچانک مسلح گروہوں کا ابھرنا، ایک “سازشی توازن” پیدا کرنے کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔
زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہی لوگ جب ہندوستان میں ایسی کارروائیاں کرتے ہیں تو “مجاہدین” کہلاتے ہیں، لیکن اگر یہی سرگرمیاں آزاد جموں و کشمیر میں ہوں، تو کیا وہی لوگ “دہشت گرد” قرار پائیں گے؟ کیا پیمانے بدل گئے یا بیانیہ؟ چند دن پہلے سابقہ وزیراعظم کی بندوق اٹھائے گلیوں میں چہل قدمی کرنا، اور آج عوام کے بیچ میں بندوق لہراتے گروہ — یہ محض اتفاق ہے یا کسی ذہن نے ان سب کو جوڑ کر فضا تیار کی ہے؟
یہی نہیں کچھ عرصہ قبل وزیراعظم آزادکشمیر انوارالحق نہ صرف ‘جہادی کلچر’ کی بحالی کی بات کرتا ہے بلکہ عوامی اجتماعات میں ہزاروں افراد کی موجودگی میں ‘الجہاد، الجہاد’ جیسے نعرے بھی لگواتا ہے۔ ایسے میں یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ کیا ان انتہاپسندانہ رجحانات کو فروغ دینے والی سرگرمیوں میں ان کا براہ راست کردار موجود ہے؟”
آزاد جموں و کشمیر کی سیاسی قیادت، سول سوسائٹی، صحافت اور باشعور عوام پر اب بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان واقعات پر خاموش تماشائی نہ بنیں۔ فتنہ صرف اس وقت نہیں پیدا ہوتا جب گولی چلتی ہے، بلکہ تب بھی جب با شعور لوگ خاموش ہو جاتے ہیں۔
اگر آج ان مظاہر کو نظر انداز کیا گیا، ان کے پس پردہ عوامل کو بے نقاب نہ کیا گیا، تو کل یہ صرف بندوق کی گھن گرج ہی نہیں لائیں گے بلکہ عوامی آواز، قومی شناخت اور آزادی کی جدوجہد کو بھی دھندلا دیں گے۔
اب وقت ہے کہ ہم سوال کریں، بات کریں، اور سازشوں کو پہچان کر ان کا توڑ سوچیں — کیونکہ فتنے جب پلنے لگتے ہیں تو سب سے بڑا کردار وہ خاموشی ادا کرتی ہے جو ظالم کو سہولت دیتی ہے اور مظلوم کو تنہا چھوڑ دیتی ہے۔