زرنوش نسیم اور اس کے بھائی کی المناک موت محض ایک سانحہ نہیں، بلکہ ایک سوال ہے ۔ ایک چیخ، جو کشمیر کی خاموش فضا میں گونج رہی ہے، مگر سننے والا کوئی نہیں۔ یہ دونوں نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ، باکردار اور فکری لحاظ سے بالغ افراد تھے۔ زرنوش نسیم نہ کوئی کم سن تھا، نہ جذباتی نابالغ؛ بلکہ ایک سنجیدہ سیاسی شعور رکھنے والا نوجوان، جو کشمیر کے مسئلے کو محض نعرہ بازی نہیں، بلکہ شعوری مزاحمت کے تناظر میں دیکھتا تھا۔ اور شاید یہی شعور اس کے قتل کا سبب بن گیا۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی یہ پرانی روش ہے کہ نوجوانوں کو نظریے اور جہاد کے نام پر استعمال کیا جاتا ہے، اور جب وہ اس جال سے نکلنے کی کوشش کریں، تو ان کے لیے زمین تنگ کر دی جاتی ہے۔ زرنوش کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اطلاعات کے مطابق پہلے اسے استعمال کیا گیا، اور جب اس نے انکار کیا تو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔ عوامی ردعمل کی شدت سے گھبرا کر ریاست نے وقتی طور پر اُسے چھوڑ تو دیا، مگر جیسے ہی وہ رہا ہوا، اس کی زندگی مزید اجیرن بنا دی گئی۔
زرنوش نے ایک وڈیو پیغام میں خود بتایا کہ اسے عوامی ایکشن کمیٹی کے خلاف مخبری پر مجبور کیا جا رہا تھا۔ اس نے صاف انکار کیا، اور یہی انکار اس کا جرم بن گیا۔ اب ریاستی ٹاؤٹ کہتے ہیں کہ اسے ’ٹی ٹی پی نے برین واش کیا‘۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان واقعی کسی گروہ کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو جائے تو یہ ریاستی اداروں کی تربیت اور بیانیے کی ناکامی نہیں؟ اگر کچھ "دہشت گرد” برین واش کر سکتے ہیں تو ایک پوری ریاست، اپنی تمام تر پروپیگنڈا مشنری کے باوجود، ذہن سازی میں کیوں ناکام رہی؟
اصل بات یہ ہے کہ زرنوش کو کسی خارجی طاقت نے برین واش نہیں کیا، بلکہ وہ خود اس جبر، دوغلے پن، اور اس ریاستی مکاری کو سمجھ چکا تھا، جو "اسلام”، "دہشت گردی” اور "قومی مفاد” جیسے کھوکھلے نعروں کے پیچھے چھپ کر نوجوانوں کو استعمال کرتی ہے، پھر انہیں بےدردی سے پھینک دیتی ہے۔ ریاست کے نزدیک صرف وہی نوجوان قابلِ قبول ہوتا ہے جو اس کے ہر ظلم پر خاموش رہے، اور جو سوال کرے، وہ غدار یا دہشت گرد۔
پولیس کا بیان آیا کہ زرنوش اور اس کا بھائی ’دہشت گرد‘ تھے، افغانستان سے روابط رکھتے تھے۔ کیا واقعی؟ اگر وہ اتنے خطرناک تھے تو جب انہیں 2024 میں اٹھایا گیا، تب عدالت میں پیش کیوں نہ کیا گیا؟ ان کے خلاف مقدمہ کیوں نہیں چلا؟ جب وہ خود ویڈیو میں بتا رہا ہے کہ اسے مجبور کیا جا رہا ہے، تو اس کی بات کو کیوں نظرانداز کیا گیا؟ کیا ریاست نے اس وقت اس کی بات سن کر تحقیق کی، یا اس کی آواز کو خاموش کرنے کا پلان بنایا؟
اور اب پولیس مقابلہ؟ مگر یہ کیسا مقابلہ ہے جس میں صرف وہی مارے گئے جن کے بارے میں پہلے سے بیانیہ تیار تھا؟ کیا یہ وہی مقابلے نہیں جو بلوچستان اور وزیرستان کی سرزمین دہائیوں سے جھیلتے آرہے ہیں؟
سچ یہ ہے کہ ریاست اب کشمیر میں بھی وہی ماڈل لانا چاہتی ہے — شعور کو برین واشنگ سے جوڑ کر کچل دو، مزاحمت کو دہشت گردی کا نام دے دو، اور عوامی سوالات کو مٹا دو۔ جو کل بلوچستان اور وزیرستان میں آزمایا گیا، آج راولا کوٹ میں دہرا دیا گیا۔
زرنوش نسیم کی لاش صرف ایک جسم نہیں، بلکہ ایک علامت ہے ۔ اس مزاحمت کی جو جھوٹے نعروں کے خلاف اٹھتی ہے، اس سوال کی جو بندوقوں کے سائے میں دبایا نہیں جا سکتا۔ وہ دہشت گرد نہیں تھا، وہ ریاست کے اس بیانیے کا قیدی تھا جو نوجوانوں کو پہلے استعمال کرتا ہے، پھر فنا کر دیتا ہے۔
اب سوال کشمیر کے عوام سے ہے:
کیا آپ اپنے شہیدوں کو خود ہی دہشت گرد کہیں گے؟ یا ان کے لہو سے ابھرنے والی سازشوں کو پہچانیں گے؟ زرنوش نسیم کا مقدمہ بندوقوں کے شور میں دفن ہو سکتا ہے، مگر اس کے سوال باقی رہیں گے۔
اور ان سوالوں کا جواب ریاست کو ایک دن دینا ہو گا۔
اگر آج کشمیری نوجوان نے ریاست سے سوال نہ کیا تو پھر وہاں اٹھنے والی ہر آواز کو اسی طرح دہشتگردی کا لیبل لگا کر خاموش کر دیا جائے گا، جیسے خوبرو جوان زرنوش نسیم اور اس کے بھائی کو خاموش کیا گیا۔
آج زرنوش چلا گیا، کل کسی اور کی باری ہے۔ اگر آج سوال نہ اٹھایاگیا، اگر اس جبر کو اسی طرح نظرانداز کیا جاتا رہا، تو ہر باشعور نوجوان زرنوش نسیم بنے گا ۔ پہلے استعمال ہوگا، پھر خاموشی سے مٹا دیا جائے گا۔ اگر کسی اور زرنوش کو اس ریاستی چالاکی کا شکار ہونے سے بچانا ہے، تو اس ظلم کے خلاف متحد ہونا ہوگا۔ مظلوم اور محکوم طبقات کو اپنے شہیدوں کی شناخت خود طے کرنی ہوگی ۔ نہ کہ ان غداروں کے ہاتھوں جو ظلم کے ایجنڈے کو زبان دیتے ہیں۔ یہ وقت تماشائی بننے کا نہیں، مزاحمت کی پہلی صف میں کھڑے ہونے کا ہے۔ ورنہ تاریخ صرف زرنوش کا نوحہ نہیں لکھے گی، خاموش رہنے والوں کا جرم بھی رقم کرے گی۔