گزشتہ ماہ پاکستان کے ایک معروف اخبار ٹربیون میں گلگت بلتستان کے حوالے سے کسی نامعلوم کالم نگار کی انگریزی میں لکھی ہوئی مضمون سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔
اس پورے کالم کا لب لباب ایسا لگتا ہے کہ بیداری سے ریاست خوف کھا رہا ہے اور پاکستان کے ان لوگوں کو جنہیں گلگت بلتستان کی خوبصورتی کے علاوہ کچھ بھی نہیں معلوم ہے۔
نامعلوم لکھاری کچھ اسطرح لکھتی ہے ،(تنقید کرنے والوں کے منفی بیانیے کے برعکس، ترقی کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ کڑاکورم ہائی وے (KKH) کو وسیع کیا جا رہا ہے۔ شندور روڈ (چترال سے رابطہ) تقریباً مکمل ہے۔ جگلوٹ-سکردو روڈ نے بلتستان کی نقل و حرکت کو بدل دیا ہے۔ شونٹر پاس (AJK تک) اور بابوسر پاس کی تمام موسمی راہداری کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔
سکردو بین الاقوامی ہوائی اڈہ سیاحت اور تجارت کو فروغ دے رہا ہے۔ تعلیم کے شعبے میں بھی تبدیلی آئی ہے: قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی (KIU) اور یونیورسٹی آف بلتستان (UoB) سمیت انجینئرنگ کالجز اور ووکیشنل مراکز قائم ہوئے ہیں۔ KIU کو سالانہ 1.4 ارب روپے جبکہ UoB کو 400 ملین روپے کی وفاقی گرانٹ ملتی ہے۔ کیڈٹ کالجز، آرمی پبلک اسکولز، اور آئی ٹی پارکس نوجوانوں کو نئے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ ہزاروں نوجوان فری لانسنگ کے ذریعے ڈیجیٹل معیشت میں حصہ لے رہے ہیں—یہ ایک خاموش انقلاب ہے جو سیاست کی شور شرابے میں کھو گیا ہے۔
صحت کے شعبے میں بھی بہتری آئی ہے۔ گلگت میں کارڈیک ہسپتال، کینسر سنٹر (GINOR)، ہیپاٹائٹس کے خلاف مہم، اور موبائل یونٹس خدمات بڑھا رہے ہیں۔ سکردو میں میڈیکل کالج کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ توانائی کے شعبے میں، جہاں 360MW کی کمی کا مسئلہ سنگین ہے، 16MW نلتر-III (80% مکمل)، 40MW ہنزل، اور 54MW عطا آباد پلانٹ جیسے منصوبوں سے بجلی کی کمی کم ہوگی۔ 34.5MW ہراہ ، 34MW غھواری، اور 100MW سولر منصوبے 2027 تک گرڈ کی تکمیل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اگر یہ منصوبے وقت پر مکمل ہوئے تو GB پانچ سال میں کمی سے زیادتی کی طرف جا سکتا ہے۔ رکاوٹیں زمین کے حصول، قانونی پیچیدگیاں، اور بیوروکریٹک نااہلی ہیں—یہ مسائل حکمرانی کے حل طلب کرتے ہیں، نہ کہ صرف قانون سازی۔
سیاحت اور تجارت GB کی معیشت کے ستون بن چکے ہیں۔ سوست ڈرائی پورٹ سال بھر فعال رہتا ہے، جہاں گزشتہ مہینوں میں 95 ملین ڈالر مالیت کا سامان منتقل ہوا۔ مقامی سیاحوں کی تعداد دس لاکھ اور غیر ملکی سیاحوں کی تعداد دو لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ ویژن 2025 کے تحت سیاحت سے سالانہ 1 ارب ڈالر آمدنی اور 10,000 نوکریوں کا ہدف ہے۔ وفاقی حکومت کا 27.36 ارب روپے کا ETI پیکیج زراعت اور دیہی ترقی کو فروغ دے رہا ہے۔
معدنیات پر سیمینارز اور CPEC کے تحت ماقپون داس میں خصوصی اقتصادی زون (SEZ) معاشی امکانات کو اجاگر کرتے ہیں۔ GB کا 60,000MW ہائیڈرو پاور پوٹینشل ابھی زیر استعمال نہیں، لیکن کام شروع ہو چکا ہے۔ یہ مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ ترقی جامد نہیں—یہ زندہ، لچکدار، اور خطے کے مستقبل کو نئے سرے سے تشکیل دے رہی ہے۔ )لیکن جو لوگ سیاسی طور پر ہمیشہ غصے پر پلتے ہیں، وہ ان حقائق کو نظر انداز کرتے ہیں۔
المیہ یہ ہے اس پورے کالم میں یہ نہیں لکھا کہ ان تمام پراجیکٹس سے گلگت بلتستان کے قومی خزانے میں کتنا پیسہ جمع ہو رہا ہے اور وسائل کی تقسیم کیلئے قانونی اور آئینی میکنزم کیا ہے ۔
دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان میں گلگت بلتستان پر تجزیہ کرنے والے اور لکھنے والے اس حقیقت کو نہیں جانتے کہ گلگت بلتستان سےتعلق رکھنے والے پرامن شہریوں کو جدید کالونیل کالے قانون شیڈول فورتھ کے شکار تقریباً 37 افراد شامل ہیں جن میں مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستگی رکھنے والے بھی شامل ہیں ۔
یاد رہے کہ اس کالے قانون میں کوئی مسلح کمانڈروں کا نام نہیں ہے جنہوں نے لوگوں کو بسوں سے اتار کر قتل کیا ان کے نام شیڈول فورتھ تو چھوڑو ان کے نام پر کسی بھی تھانے میں ایف آئی آر تک درج نہیں ہے دہشگردی کے جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں وہ نامعلوم افراد کے نام ایف آئی آر ہے ۔
ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ گلگت بلتستان کے محکوم عوام کے حق میں عوامی ایشوز بات کرنے والوں کو دہشت گرد بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے ۔۔۔ لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں یہاں تک کہ گلگت بلتستان اسمبلی کے ممبران بھی خاموش تماشائی نظر آتا ہے ۔
لہذا ہم سوال کرنا چاہتے ہیں کہ دیامر سے تعلق رکھنے والے جاوید نمبردار اور عثمان علی کس دہشت گردی میں ملوث تھے یا انہوں نے کونسے فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش کیا ہے۔۔۔۔۔؟؟
ہمیں بتایا جائے نگر سے تعلق رکھنے والے شیخ شبیر حافظی اور یاور عباس کا تعلق کس دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رکھتے تھے جس وجہ سے ان کو شیڈول فورتھ میں ڈالا گیا اور انہوں نے کہاں کہاں بم دھماکہ کئیے ۔۔۔۔۔؟؟؟
غذر سے تعلق رکھنے والے طاہر علی طاہر ، یاور بالاور اور شیر نادر شاہی کس دہشت گردی میں ملوث تھے جس کی وجہ انکو شیڈول فورتھ میں ڈالا تھا۔
سکردو سے تعلق رکھنے والے اغا علی رضوی ، منظور پروانہ، وزیر حسنین کس دہشت گردی میں ملوث تھے جس وجہ سے شیڈول فورتھ میں ڈالا گیا ہے۔
شگر کے شیخ علی کریمی نے کس کی زمینوں پر قبضہ کیا تھا یا گلگت سکردو روڈ کے ٹنل کھا گیا تھا جس وجہ سے شیڈول فورتھ میں ڈالا گیا ۔۔۔۔؟؟؟
استور سے تعلق رکھنے والے راجہ ناصر کس دہشت گردی میں ملوث تھایا انہوں نے استور کے خوبصورت مقامات پر قبضہ کیا تھا۔۔؟؟؟
عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے درج ذیل رہنمائوں کو انسداد دہشت گردی کے دفعات لگا کر جیلوں میں ڈالا گیا ہے ۔؟
احسان ایڈووکیٹ ، مسعود الرحمن، انجینئر محبوب،ممتاز نگری ایڈووکیٹ ،نفیس ایڈووکیٹ،تعاروف عباس ایڈووکیٹ ،ابرار بگورو ،شیرنادر شاہی ،اسلم علی انقلابی،عرفان آزاد، منظر مایا ،اصغر شاہ،وحید حسن اوراور بزرگ رہنماء حاجی نائب خان ،میر بابر ، نصرت حسین ، جاوید نمبردار ، اشتیاق گلیتو سمیت دیگر لوگوں پر ایف آئی ار درج کرنا ۔ہمیں یہ بتایا جائے یہ تمام لوگ کس کس دہشت گردی میں ملوث ہیں ؟؟؟ اور کب تک جھوٹ کا سہارا لیا جائے گا۔۔۔۔۔؟؟؟
٭٭٭