اسلام آباد ( کاشگل نیوز)
اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین مذہب مقدمات کی سماعت کے دوران جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے تین جون (آج) کی آرڈر شیٹ میں لکھا کہ ’جب مقدمے کا نمبر پکارا گیا تو دن 10بج کر 45 منٹ پر درخواست گزاروں کی جانب سے کوئی بھی وکیل حاضر نہ ہو سکا۔ یہ غیرمعمولی صورتحال تھی کیونکہ وہ عموما بروقت حاضر ہوتے رہے تھے۔ آج عثمان وڑائچ ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل مکمل کرنا تھے اور ہادی علی چٹھہ ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل کا آغاز کرنا تھا۔ دونوں وکلا کی عدم حاضری کے باعث مقدمے کی سماعت ملتوی کر دی گئی۔‘
’جب میں عدالت میں مقدمات کی سماعت مکمل کر آیا تو وکیل ہادی علی چٹھہ میرے چیمبر میں آئے۔ وہ واضح طور پر پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ انہوں نے عدالت میں حاضر نہ ہونے کی وضاحت پیش کی اور بتایا کہ گزشتہ روز پولیس نے اُن کو گرفتار کرنے کی کوشش کی، جو اس مقدمے میں شامل ایک مدعا علیہ وکیل کی جانب سے اُن کے خلاف شرارت کے طور پر درخواست کی وجہ سے تھی۔
انہوں نے بتایا کہ وہ پولیس کو چکمہ دے کر نکل گئے۔ آج جب وہ عدالت آ رہے تھے تو ان کو دوبارہ حراست میں لینے کی کوشش کی گئی۔ وہ اپنی گاڑی کو نکال کر لے آنے میں کامیاب ہوئے مگر اس دوران ایک حادثہ ہونے سے نہ بچ سکے۔
وکیل ہادی علی چٹھہ نے مزید بتایا کہ اُن کے خلاف سائبر کرائم کا ایک مقدمہ حسن معاویہ نے درج کرایا ہے (یہ میری عدالت میں بلاسفیمی کیس میں مبینہ گینگ کے رکن ہیں۔) اس مقدمے میں انکوائری جاری ہے۔‘
اوپر بتائے گئے واقعات پر شدید تشویش ہے کیونکہ یہ مسٹر چٹھہ کو قومی اہمیت کے مقدمے میں میری عدالت میں بطور وکیل پیش ہونے سے روکنے کی کوشش کے مترادف ہو سکتا ہے جو انصاف کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ہادی علی چٹھہ کو اس عدالت میں دلائل دینے اور توہین مذہب کے ٹرائل کورٹ میں جاری مقدمات میں ملزمان کی جانب سے پیش ہونے سے روکنے کے لیے دوسرے فریق کی جانب سے اُن کے خلاف درج مقدمہ جان بوجھ کر/ سوچا سمجھا ڈیزائن ہو سکتا ہے۔
اس لیے عدالت کوئی رائے بنائے، آگے بڑھنے کے لیے اس امر کی ضرورت محسوس کرتی ہے اس کے حقائق جانے کہ جو باتیں اوپر بیان کی گئیں کیا اس کے پیچھے کوئی مذموم مقاصد تو نہیں۔
ڈی جی، نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کو نوٹس جاری کیے جاتے ہیں کہ وہ لاہور کے اس افسر سے جس نے حسن معاویہ کی درخواست پر ہادی علی چٹھی کے خلاف انکوائری شروع کی، حالات کا پتہ لگانے کے بعد ایک جامع رپورٹ پیش کرے۔
رپورٹ میں یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ آیا کوئی رسمی یا غیررسمی ہدایات ایف آئی اے/این سی سی آئی اے کے افسر نے جاری کیں کہ اسلام آباد پولیس مسٹر چٹھہ کو حراست میں لے۔ یہ رپورٹ جمعرات کو صبح 10:45 پر اس عدالت میں پیش کی جائے۔ مزید یہ کہ جس شکایت پر مقدمہ درج کیا گیا اس کی تفصیلات اور سوشل میڈیا کلپ جس کی بنیاد پر یہ مقدمہ بنایا گیا عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ ملاحظہ کیا جا سکے۔
ڈی آئی جی آپریشنز، اسلام آباد کو نوٹس جاری کیا جاتا ہے کہ ایک جامع رپورٹ جمع کرائیں کہ جن پولیس افسران نے مسٹر چٹھہ کی گاڑی کا راستہ روکا تھا، وہ ایسا کرنے کی وجہ بتائیں۔
اس دوران مسٹر چٹھہ کو اس عدالت میں پیشی سے نہیں روکا جائے گا۔
عدالتی دفتر کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان احکامات کو ڈی جی تک ٹیلی فون پر پہنچائے۔
مذکورہ افسران کو ان کی سہولت کے مطابق واٹس ایپ یا ای میل کے ذریعے آرڈر پہنچایا جائے اور عدالتی احکامات کی بروقت تعمیل کو یقینی بنائیں۔