فسطائیت (فاشزم) ایک ایسا سیاسی و سماجی نظام ہے جو قوم پرستی، آمریت، اور طاقت کے بے دریغ استعمال پر قائم ہوتا ہے۔ اس کا آغاز لاطینی لفظ "فاشیو” (لکڑیوں کے گٹھے) سے ہوا، جو علامتی طور پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ چند عناصر طاقت کا گٹھ جوڑ بنا کر ریاست اور سماج پر قبضہ جما لیتے ہیں۔ فسطائیت کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ سوچ اور اختلاف کو دشمنی کے درجے پر رکھتی ہے، اور جو بھی اس کے خلاف آواز اٹھائے، اسے دبانے کے لیے ہر طرح کی جارحیت جائز تصور کرتی ہے۔
فسطائی نظام سب سے پہلے مخالف خیالات کو نشانہ بناتا ہے۔ ایسی ہر سوچ جو آمریت، جبر، اور ناانصافی کو چیلنج کرے، اسے دشمن قرار دے کر ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ نظام مسلسل شکلیں بدلتا ہے، لیکن اس کا مقصد ہمیشہ وہی رہتا ہے: عوامی شعور کو دبانا اور اختلاف کو ختم کرنا۔
فاشسٹ قوتیں اپنے جرائم کا الزام بھی دوسروں پر ڈالتی ہیں اور پھر اسی بنیاد پر مزید ظلم روا رکھتی ہیں۔ فسطائیت کی شناخت کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ریاست کس طرح معیشت، سیاست، اور قانون کو اپنے قبضے میں لے کر اسے مخالف آوازوں کے خلاف استعمال کرتی ہے۔
یہ نظام اندھی قوم پرستی کو فروغ دیتا ہے — جھنڈے، نعرے، قومی ترانے اور وردیاں اس شدت سے استعمال ہوتی ہیں کہ ایک اجتماعی ہیجان پیدا ہو جائے۔ لوگوں کو ایک مصنوعی جذبے میں مبتلا کرکے ان کے تنقیدی شعور کو سلب کرلیا جاتا ہے۔
فسطائیت فرضی دشمن تراشتی ہے تاکہ لوگوں کو مسلسل خوف کی حالت میں رکھا جا سکے۔ قومی سلامتی کے نام پر عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے، اور جب ریاست ظلم کرتی ہے تو اسے حب الوطنی یا مذہبی تقدس کا لبادہ پہنا دیا جاتا ہے تاکہ لوگ اس ظلم کو جائز سمجھنے لگیں۔
یہ نظام ہمیشہ ایک مشترکہ "دشمن” بناتا ہے ، چاہے وہ مذہبی اقلیت ہو، لبرل سوچ رکھنے والا ہو، یا کوئی اور متبادل بیانیہ — اور پھر اس دشمن کو نشانہ بنا کر عوام کو ایک غیر حقیقی قومی جنون میں مبتلا رکھتا ہے۔
فوجی اداروں کو مقدس بنا کر ان پر وسائل نچھاور کیے جاتے ہیں، اور سماج کو اس نہج پر لے جایا جاتا ہے کہ عوام اپنی فاقہ کشی کو سوال کے بجائے قسمت سمجھ لیں۔ میڈیا کو مکمل کنٹرول میں رکھ کر آزاد سوچ کو کچلا جاتا ہے، اور مختلف مذہبی علامات کا استعمال عوام کو مزید قابو میں رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
تخلیقی سوچ اور نئے خیالات فسطائی ریاست میں سب سے بڑا جرم سمجھے جاتے ہیں۔ اختلاف کرنے والوں پر غداری اور مذہب دشمنی کے الزامات لگائے جاتے ہیں، اور ان کا انجام اکثر قتل، گمشدگی یا جلاوطنی ہوتا ہے۔
ایسی ریاست صرف طاقت کی زبان بولتی ہے۔ یہاں نہ صرف بولنے والا غائب کر دیا جاتا ہے بلکہ معصوم بچوں تک کو بخشا نہیں جاتا۔ ظلم کو حب الوطنی کی چادر اوڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور مرنے والوں کو شہید کا لقب دے کر ان کے خاندانوں کو خاموش کرا دیا جاتا ہے۔
خواتین کی توہین، بچوں کی محرومی، اور معاشی بدحالی کو تقدیر بنا دیا جاتا ہے۔ ایسے نظام میں نوکری، کاروبار اور ترقی کا انحصار وفاداری پر ہوتا ہے، نہ کہ قابلیت پر۔ انتخابات محض ایک دکھاوا ہوتے ہیں، جہاں مختلف چہرے، مگر ایک ہی سوچ رکھنے والے گروہ اقتدار کی کرسی پر بیٹھتے ہیں۔
اگر ان تمام علامات کو سامنے رکھیں تو پاکستان ایک واضح فسطائی ریاست کا نمونہ پیش کرتا ہے۔ ایک ایسی ریاست جو اپنے ہی عوام اور پڑوسیوں کے خون پر پروان چڑھی ہے۔ آج جب سیاست ہر شے کو نگل رہی ہے، عوام کی آواز کو دبایا جا رہا ہے، اور اختلاف کرنے والوں کو غدار قرار دیا جا رہا ہے، تب یہ سوال اور بھی اہم ہو گیا ہے کہ ہم خاموش رہیں یا بولیں۔
جہاں ہر طرف خوف اور خاموشی کا راج ہو، وہاں زندہ رہنے کی علامت صرف یہ ہے کہ ہم اس جبر کے خلاف کھڑے ہو جائیں۔ فسطائیت ہمیں مرنے سے پہلے مار دیتی ہے — ہمارے سوچنے، بولنے، اور سمجھنے کی صلاحیت چھین لیتی ہے۔
لہٰذا اگر ہم انسانیت، آزادی اور خودداری کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں فسطائیت سے انکار کرنا ہوگا۔ کیونکہ جو ریاست بندوق کے مقابلے میں قلم کو جرم سمجھتی ہو، وہاں خاموشی جرم بن جاتی ہے اور مزاحمت، بقاء کی واحد صورت۔
٭٭٭
Share this content:


