بلوچستان میں جبری لاپتہ ایک اور نوجوان کا حراستی قتل ، لاش برآمد

بلوچستان میں پاکستانی فورسز کی جانب سے بلوچ نسل کشی کی غیر انسانی و گھنائونا سلسلہ بغیر کسی دبائو کے کھلے عام جاری ہے۔

ضلع پنجگور کے علاقے سوردو غریب نواز ہوٹل کے قریب ایک نوجوان کی گولیوں سے چھلنی لاش برآمدہوئی ہے۔

لاش کی شناخت لاپتہ ظہیر بلوچ کے بیٹے ذیشان ظہیر کے نام سے ہوئی ہے۔

پولیس کا کہنا ہے ان کے جسم پر گولیوں کے نشانات ہیں۔

ذیشان ظہیر کے والد ظہیر بلوچ پچھلے دس سالوں سے فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ ہیں ،اپنے والد کی بازیابی کے لئےذیشان احتجاج کررہے تھے ۔

21 سالہ طالب علم اور خدا آباد، پنجگور کے رہائشی ذیشان کو 29 جون 2025 کی رات تقریباً 8:00 بجے فٹ بال چوک، پنجگور سے ریاستی حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈ نے جبری طور پر لاپتہ کر دیا۔ آج صبح سوردو پنجگور سے ان کی گولیوں سے چھلنی لاش برآمد ہوئی۔

ذیشان ظہیر احمد کا بیٹا تھا جو 13 اپریل 2015 سے جبری طور پر لاپتہ ہوا تھا آج تک بازیاب نہ ہوسکا۔

ذیشان کے اغوا کے چند گھنٹوں بعد، اس کے اہل خانہ نے پنجگور میں سی پی ای سی روڈ پر احتجاجی دھرنا دیاجو ہنوز جاری ہے جس میں  اس کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا جارہاہے ۔

آج صبح 9:00 بجے کے قریب اہل خانہ کو ان کی قتل کی خبر موصول ہوئی۔

ذیشان کی گولیوں سے چھلنی لاش سردو غریب نواز ہوٹل کے قریب سے ملی۔ اس کے جسم پر گولیوں کے متعدد زخم پائے گئے۔

واضع رہے کہ بلوچستان میں فورسز ہاتھوں جبری لاپتہ متعدد افراد کی وقفے وقفے سے لاشیں برآمد ہوتی رہتی ہیں۔ جس پر فورسز حکام دعویٰ کرتی رہتی ہے کہ وہ مقابلوں میں مارے گئے ہیں لیکن دوسری جانب لاپتہ افراد لواحقین یہ ثابت کر چکی ہیں کہ فورسز ہاتھوں مارے جانے والے اکثر افراد پہلے سے جبری لاپتہ ہوئے ہیں جنہیں جعلی کارروائی میں قتل کرکے انہیں مسلح افراد ظایر کیا جاتا ہے۔

Share this content: