افسانہ: آزادی کا اصل سورج ۔۔۔ رضوان اشرف

رات کی نمی ابھی زمین میں بسی ہوئی تھی، مگر سورج نکلتے ہی محلے کے کچے راستوں پر گرد اڑنے لگی تھی۔ نالے کے پانی کی بدبو گلی کے ہر موڑ پر رکی ہوئی تھی، جیسے وقت بھی یہاں سے گزرنے سے کتراتا ہو۔

رشید ایک محنت کش تھا اس کی جھونپڑی میں اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ سورج کی ہلکی کرنیں ٹاٹ اور پلاسٹک کے پیوندوں سے چھن کر کمرے کے اندر مٹیالے دھبوں کی صورت گر رہی تھیں۔ فرش پر بچھی بوری کے کنارے پھٹے تھے اور ایک کونے میں خالی مٹی کا گھڑا الٹا پڑا تھا۔

چولہے کے پاس زینت بیٹھی تھی، ہاتھ میں جلتا ہوا ماچس کا تیلا پکڑے، جو ایک لمحے بعد بجھ گیا۔ "رشید… لکڑیاں ختم ہو گئیں۔” اس کی آواز میں تھکن نہیں، ایک خالی پن تھا۔۔۔۔ جیسے سالوں سے بھوک اور محرومی نے جذبات کو دھو کر خشک کر دیا ہو۔

رشید نے آہستہ سے کہا، "رہنے دو… آج پھر ناشتہ نہیں ہوگا۔” اس کے الفاظ جیسے ہوا میں کسی ٹوٹے پرندے کے پروں کی طرح لڑکھڑا کر گرے۔ کونے میں بیٹھے بچوں نے سوالی آنکھوں سے دیکھا، مگر کچھ کہا نہیں۔ شاید وہ جان چکے تھے کہ سوال بھی کبھی بھوک سے مر جاتے ہیں۔

باہر سے شور آنے لگا۔ لاؤڈ اسپیکر پر نغمے چل رہے تھے—”یہ وطن ہمارا ہے، ہم ہیں پاسبان اس کے”. بچے ہنس رہے تھے، ہاتھوں میں سبز ہلالی جھنڈے لہرا رہے تھے۔ بازار میں گول گپے، چٹ پٹے چنے، سبز ، سفید اور گلابی غبارے۔۔۔۔۔

رشید کھڑکی کے کچے فریم سے باہر دیکھتا رہا۔ دل میں ایک طنزیہ سوال اٹھا: "کیا یہ وطن میرا بھی ہے؟ یا میرا حصہ صرف یہ نالہ، یہ جھونپڑی، یہ بھوک اور لاوارثی ہے؟

زینت نے دھیرے سے کہا، "آج جشن ہے… محلے والے کہہ رہے تھے سب میدان میں جا رہے ہیں۔”

رشید کے ہونٹوں پر ایک سخت ہنسی آئی، جو فوراً بجھ گئی۔
جشن؟ کس کا جشن؟ وہ جو محلوں میں بیٹھے ہیں اور ان کے کتوں کا کھانا بھی ہمارے کھانے سے اچھا ہے۔ اس کا جشن؟ یا وہ جو ہمارے ووٹ خرید کر ہمارے بچوں کا مستقبل بیچ کر اپنے خاندان کو عیاشیاں کرواتے ہیں اس کا جشن؟ یا سارا دن محنت مزدوری کرنے کے بعد بھی آپ لوگوں کی تین وقت کی روٹی پوری نہ ہو سکنے کا جشن ؟ زینت! آزادی وہ نہیں جو کاغذ پر لکھی ہو۔ آزادی وہ ہے جو عمل میں محسوس ہو، جو ریاست کے شہری کے علم و آگہی، سماجی حالات کی بدولت اس کے چہرے و دل سے نمودار ہو ، جو عزت و تکریم کے ساتھ جانی جائے۔

اسی وقت دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ محلے کے تین نوجوان کھڑے تھے۔ سب سے آگے یاسر تھا۔۔۔۔۔ پتلا، درمیانہ قد، آنکھوں میں ایک چمک جو کسی عام طالب علم میں کم ہی ہوتی ہے۔
بھائی رشید! ہم آج میدان میں نہیں جا رہے۔ ہم چوک پر بیٹھک کریں گے۔ ہم یہ بات کریں گے کہ آزادی صرف جھنڈا اور ترانہ نہیں، بلکہ روٹی، علاج، تعلیم اور انصاف سمیت تمام بنیادی انسانی مسائل سے آزادی ہے۔

رشید نے سنجیدگی سے پوچھا، یہ بات آج کیوں؟
یاسر نے قدم اندر رکھا، جیسے الفاظ کا بوجھ اتنا تھا کہ کھڑا رہنا مشکل ہو:۔۔۔

کیونکہ آج کے دن سب کو یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ ہم آزاد نہیں۔ ہم غلام ہیں— مہنگائی کے، رشوت کے، بھوک کے، ناانصافی کے، جبر کے ، لاقانونیت ، نفرت و وحشت کے غلام۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب تک یہ زنجیریں نہیں ٹوٹتیں، تب تک آزادی کے نام پر یہ جشن عوام کے ساتھ صرف مذاق ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

رشید کے دل میں دادا کا چہرہ ابھرا—قید میں کوڑے کھاتے ہوئے، مگر آنکھوں میں روشنی لیے کہتا: "بیٹا، آزادی کا مطلب سب کے لیے برابر کا حق ہے۔” رشید نے گہرا سانس لیا، جیسے برسوں سے سینے میں دبے الفاظ آخرکار باہر آنا چاہتے ہوں۔

شام کو چوک میں بیٹھک لگی۔ نہ جھنڈے، نہ آتش بازی، نہ بلند لاؤڈ اسپیکر۔ صرف لوگ۔۔۔۔۔۔ پھٹے کپڑوں والے مزدور، ریڑھی بان، محنت کش عورتیں، کالج کے چند طالب علم، اور چند بچے جو بھوک کے باوجود متجسس تھے۔۔۔۔۔

یاسر نے سب کے سامنے کہا، ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہم آزاد ہیں۔۔۔۔۔۔ مگر ہمارے ذہن آزاد نہیں، ہماری عدالت و سیاست آزاد نہیں، ہاں صرف ہمارے سماج کے طاقتور ہر رسم و قانون سے آزاد ہیں، ہمارے پیٹ آزاد نہیں، ہمارے ہاتھ خالی ہیں۔ یہ آزادی نہیں، یہ دھوکا ہے۔ ہم اس دھوکے کو ختم کریں گے—اپنے حق کے لیے لڑ کر، اور ایسا سماج بنا کر جہاں انسان کو جیب سے نہیں، انسانیت سے پرکھا جائے۔۔۔۔۔۔
یاسر بولتا چلا گیا۔۔۔۔
ہاں۔۔۔۔ آزاد ہیں تو صرف اس ملک کے طاقتور آزاد ہیں، اشرفیہ آزاد ہے، افسر شاہی آزاد ہے جو اس ملک کو صرف کرپشن کا اڈہ بنائے ہوئے ہیں اور یہاں سے پیسے بٹور کر اپنے کاروبار بیرون ممالک کرنے میں آزاد ہیں، عوام کے پیٹ میں چھرا گھونپ کر اپنے خاندانوں کو عیاشیاں کروانے میں آزاد ہیں۔۔۔۔ ہاں ! اس ملک کا طاقتور طبقہ ہر چیز ، ہر قانون سے آزاد ہے حتیٰ کہ وطن کی محبت سے بھی آزاد ہے۔۔ یہ اشرفیہ اور اسکے سہولتکار وطن کی محبت کو بھی محض اپنے کاروبار اور دب دباؤ کے لیے استعمال کرنے میں آزاد ہیں۔۔۔۔

رشید بھی کھڑا ہو گیا۔ اس کی آواز میں وہ لرزش تھی جو صرف سچ کے بوجھ سے آتی ہے۔۔۔

اس ملک میں اس طبقاتی سماج میں غریب عوام آزاد نہیں ہے!! اس عوام کی کہیں کوئ شنوائی نہیں !!! عدالت ہو کہ کچہری، تھانہ ہو، پٹوار خانہ کہ کوئی اور سرکاری دفتر ۔۔۔ عوام ذلیل و خوار ہے، محکوم ہے! ہاں! آزاد ہیں یہ بڑی گاڑیوں، بڑی داڑھیوں، بڑے پیٹوں والے اور جن کے بینک بیلنس بڑے ہیں۔۔۔ وہ آزاد ہیں .. رشید جذبات سے بولتا چلا گیا ۔۔۔
قومی ریاستوں کا کوئی مذہب ہو سکتا ہے نہ اس حکمران طبقے کا کوئی مذہب ہوتا ہے، چاہے جس رنگ و نسل سے تعلق رکھتے ہوں۔ مذہب کا نام صرف اپنے مفاد اور محنت کش طبقے کے استحصال کے لیے کرتے ہیں۔ حکمران طبقے کا مفاد دراصل محنت کش طبقے کے استحصال سے ہی ہے۔ اسی لیے حکمران شعور سے ڈرتے ہیں۔ آج آپ دیکھ لو جہاں جہاں بھی عوام باشعور ہو کر اپنے حقوق کا تقاضا کر رہی ہے وہاں حکمران عوامی نمائندوں پر شعور بیدار کرنے اور حقوق کیلیے عوام کو منظم کرنے کو جرم قرار دیتے ہوئے ان رہنماؤں پر دہشتگردی اور ریاست سے بغاوت جیسے مقدمات کا اندراج کر رہی ہے۔۔۔۔۔۔
رشید زندگی میں پہلی دفعہ تقریر کر رہا تھا ، نہ کسی سے داد کی طلب نہ کسی لیڈر کی راضگی ناراضگی سے غرض۔۔۔ وہ صرف سچائی بیان کر رہا تھا۔۔۔ حقیقی آزادی کے لیے۔۔۔ اپنی نسلوں کے بہتر مستقبل کے لیے۔

کچھ لمحے تؤقف کے بعد وہ دوبارہ گویا ہوا۔۔
ریاست جبر کا آلہ ہے، یہ اشرفیہ کا ایک ٹولہ ریاست پر قابض ہے جو اپنے مفادات کو ریاستی مفادات کہتا ہے۔ مذہب جیسی مقدس چیز بھی یہ حکمران اپنے مفاد میں استعمال کرنے میں نہیں شرماتے۔ دیکھ لو ریاستی مفاد کے نام پہ اپنے ہی ہم مذہب لوگوں کے گلے کاٹے جا رہے ہیں، اغوا کیا جا رہا، مسخ شدہ لاشیں پھینکی جا رہی ہیں۔ درد بہت زیادہ ہیں، تکالیف و مسائل بہت زیادہ ہیں۔ آپ سب لوگ بھی صبح سے شام تک استحصال کا شکار ہو اور جو درد ، مسائل میں جھیلتا سمجھتا ہوں وہ آپ بھی سمجھتے اور جھیلتے ہیں۔۔۔۔
ہمارے مسائل مشترک ہیں ، ہماری جدوجہد بھی مشترک ہے! تو پھر کیوں ہم خوف اور بے چارگی کی زنجیروں میں خود کو قید کر کے حکمرانوں کے راگوں پر جھوٹ موٹ کا دھمال ڈالتے پھریں ؟؟ یہ وطن ہمارا ہے! ہم سب کا ہے!!۔۔۔ صرف چند فیصد حکمران طبقے کا نہیں ۔۔۔۔ پھر ہم کیوں خاموش رہیں ؟ بنیادی انسانی ضروریات ریاست کی ذمہ داری ہے تو پھر حکمرانوں کی عیاشیوں اور عوامی ضروریاتِ زندگی میں تقابلہ کون کرے گا؟ کیا ہم مصلحت کا شکار ہو کر اپنی نسلوں کو بھی ایسی جھوٹ موٹ کی آزادی کا ورثہ دے جائیں جسکی کوئی حقیقت نہیں ۔۔۔۔ محض لفظی آزادی۔۔۔ اور عمل میں بھوک، بے روزگاری، کرپشن، ظلم حتیٰ کہ بولنے پہ بھی پابندیاں اور جبر۔۔۔۔
میں جبر کی اس سیاہ رات کو آزادی نہیں مان سکتا۔ آزادی وہ ہے جس میں سماج کو باشعور بناتے ہوئے نہ صرف بہتر زندگیاں فراہم کی جائیں بلکہ ایسے مواقع پیدا کیے جائیں کہ عوام اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کی ترقی اور خوبصورتی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔۔
میں اور کچھ نہ بھی کر سکا تو یہ عہد ضرور کرتا ہوں کہ میں ان کے جھوٹے جشن کو ضرور بے نقاب کروں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا بیٹا اگلے آزادی کے دن کو بھوک، جبر و بے چارگی سے نہیں، عزت اور وطن کی حقیقی محبت سے یاد کرے۔۔۔۔
اس لیے عوامی اتحاد اور تنظیم اب وقت کی اولین ضرورت اور فرضِ عین ہے۔ ہم سب پر لازم ہے کہ اپنے حقوق کے لیے متحد ہو کر جدوجہد کریں۔۔۔

لوگوں نے تالیاں نہیں بجائیں۔ مگر آنکھوں میں وہ روشنی آ گئی جو برسوں سے دفن تھی۔۔۔۔

دور شہر کے میدان میں آتش بازی نے آسمان کو رنگ دیا۔ مگر اس گلی میں، ایک چراغ کی مدھم لو میں، ایک نیا سورج جنم لینے لگا—آزادی کا اصل سورج۔۔۔ جو یہ جان گیا تھا کہ طبقاتی سماج میں ریاست صرف جبر کا آلہ اور حکمران طبقے کے مفادات کی محافظ ہوتی ہے۔۔۔۔

٭٭٭

Share this content: