انتظامیہ و پولیس کے پیچھے چھپے سیاسی کارکنان، رہبر و رہنما۔۔۔ حارث قدیر

ایک وقت تھا کہ سیاسی کارکنان نظریات کی بنیاد پر سیاست کرتے تھے۔ سیاسی رہبر و رہنما اپنے نظریات کا دفاع میدان میں کرنے کی جرأت، ہمت، طاقت اور فن لیس ہوتے تھے۔ انتظامی افسروں، پولیس افسروں اور بالخصوص فوجی افسروں کے پاس کھڑے ہونا بھی سیاسی کارکن توہین سمجھتے تھے۔ سائل بننے کے عمل کو انتہائی ناپسندیدہ سمجھا جاتا تھا۔ جو لوگ انتظامی افسروں کی درباریوں کا کردار ادا کرتے تھے، انہیں معززین کہا جاتا تھا اور ان کو سیاسی کارکنان انتہائی حقارت سے یاد کیا کرتے تھے۔

کسی انتظامی افسر کی سربراہی میں منعقدہ پروگرام میں جانا بھی سیاسی قائدین توہین سمجھتے تھے۔ سیاسی جماعتیں اپنے پروگرامات منعقد کیا کرتی تھیں۔ انتظامی افسران ملازمین کو جمع کر کے سرکاری تقاریب منعقد کیا کرتے تھے۔ بہت زیادہ ہو جائے تو انتظامی افسران کی سربراہی میں منعقدہ پروگراموں میں وزراء حکومت خطاب کرنے، پرچم کشائی وغیرہ کرنے جایا کرتے تھے۔ تاہم وہ وہاں بھی حکومت کی نمائندگی کرتے تھے، نہ کہ سیاسی جماعت کی۔

ایک یہ وقت ہے کہ اقتدار کی راہداریوں میں رہنے والی سیاسی جماعتوں کو لوگوں نے بری طرح سے دھتکار دیا ہے۔ اب یہ نام نہاد مین سٹریم جماعتیں خود ہی تراشے گئے قومی ایام پر اپنے بل بوتے پر پچاس بندے جمع کرنے کی اہلیت اور صلاحیت بھی کھو چکی ہیں۔ اس لیے جب یہ سرکاری ایام ہوتے ہیں تو سب کی نگاہ ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں ہونے والے اجلاسوں اور ڈپٹی کمشنر کی قیادت میں ہونے والی ریلیوں پر ہوتی ہے۔ اب یہ بڑے بڑے سابقے اور لاحقے ساتھ لگانے والے اور مین سٹریم کہلانے والے رہنما انتظامی افسروں اور پولیس کے پیچھے چھپ کر اپنی عزت بچاتے نظر آتے ہیں۔

سرکاری ایام کی سلیبریشن کے لیے سکولوں کے بچوں کو زبردستی بلایا جاتا ہے، یونیورسٹی اور کالجوں کے ہاسٹلوں سے طلبہ و طالبات کو زبردستی لایا جاتا ہے۔ سرکاری ملازمین کی چھٹیاں منسوخ کر کے ان کی حاضری یقینی بنوائی جاتی ہے اور اس طرح کچھ گزارہ چل پاتا ہے۔ تاہم جب سکولوں کے بچے ان ریلیوں اور پروگرامات میں آتے ہیں تو وہاں پر آزادی اور خودمختاری کا نعرہ لگ جاتا ہے اور سوشل میڈیا کا سامان بن جاتا ہے۔ اگر آزادانہ جماعتی قوت پر کوئی سرگرمی کریں تو چند درجن لوگوں کا یہ اجتماع بھی سوشل میڈیا کے مصالحے دار کنٹنٹ کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔

اب یہ دن بھی آگئے ہیں کہ ساری مین سٹریم جماعتیں، جو ہزاروں ووٹ لے کر اسمبلیوں میں موجود ہیں، انہیں اپنے نظریات کے دفاع اور تحفظ کے لیے بھی پولیس اور انتظامیہ کی مدد درکار ہے۔ سائل بنے اپیلیں کرنا اب ان کی مجبوری بن چکی ہے۔ جب اپنے نظریات پر لوگو کو قائل نہ کر سکے تو پولیس کے ذریعے مخالف نظریات رکھنے والے نوجوانوں کو مقدمات میں الجھا کر، ان کے خلاف سخت ترین کارروائیاں کروا کر، ان کے والدین کو بلیک میل کر کے یہ ان نوجوانوں کو مین سٹریم کے ان نام نہاد نظریات اور سیاسی عقائد کا وفادار رکھنا چاہتے ہیں۔

جب سیاست دانوں اور سیاسی کارکنوں پر یہ وقت آجائے کہ انہیں اپنے نظریے کے غلبے کے لیے پولیس کے ڈنڈے اور ایف آئی آر کی مدد درکار ہو تو اسے اپنی قیادت کی عزت بچانے کے لیے سوشل میڈیا پر مزید ایف آئی آروں اور جواب وغیرہ دینے کی دھمکیاں لگانے کی بجائے سیاست سے دستبرداری اختیار کرنے کا اعلان کر لینا چاہیے۔

Share this content: