اس میں کوئی شک نہیں میڈم کی جان بچائی جا سکتی تھی اگر ویڈو بنانے کے بجائے کوشش کی جاتی پانی بھی کم تھا اور گاڑی بھی سامنے تھی شیشہ بھی توڑا جا سکتا تھا کسی نے جان بچانے کی کوشش ہی نہیں کی۔
"”سانحہ پونچھ یونیورسٹی "”
طوفانی بارشوں کا سلسلہ کئی روز سے جاری تھا۔ آسمان گویا پگھل کر زمین پر اتر آیا تھا۔ پہاڑی ندی نالے اپنے بپھرے ہوئے تیور دکھا رہے تھے۔ ہر کوئی خوف اور بے بسی کی کیفیت میں مبتلا تھا۔ اور آج، 18 اگست 2025 کی صبح، یہ قیامت خیز بارش آزاد کشمیر کے دلکش مگر نازک شہر راولاکوٹ تک جا پہنچی۔
نالوں کے کنارے واقع مارکیٹیں اور اسکول پانی کے طوفان میں ڈوب گئے۔ بچوں کی کتابیں اور بستے پانی کی نذر ہو گئے۔ معصوم بچے چیخ و پکار کرتے رہے اور ریسکیو اہلکار اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر انہیں نکالتے رہے۔ گھروں میں داخل ہوتا پانی لوگوں کی امیدوں اور خوابوں کو بھی بہا لے گیا۔ زندگی لمحہ بہ لمحہ ایک آزمائش میں ڈھلتی جا رہی تھی۔
لیکن اس ہولناک دن کا سب سے کربناک منظر اُس وقت رقم ہوا جب پونچھ یونیورسٹی کی ایک درخشندہ ستارہ، ایک علم کی شمع، ایک شفیق اور لائق استاد ڈاکٹر گل لالہ اپنی درسگاہ کے لیے گھر سے نکلیں۔ وہ حسبِ معمول اپنے دن کا آغاز علم کی روشنی پھیلانے کے لیے کر رہی تھیں۔ مگر کون جانتا تھا کہ آج ان کا سفر درسگاہ نہیں، بلکہ ابدی آرام گاہ کی طرف ہو گا۔
جیسے ہی وہ یونیورسٹی کیمپس کے قریب پہنچیں، ایک تیز و بے رحم سیلابی ریلہ ان کی گاڑی کو بہا لے گیا۔ لمحوں میں یہ منظر شہر کو سوگوار کر گیا۔ وہ مسکراتی، نرم دل اور پروفیشنل استاد جو کل تک اپنے طلبہ کو علم کے موتی بانٹ رہی تھیں، آج خود موت کے سمندر میں اتر گئیں۔
ڈاکٹر گل لالہ، جن کا تعلق کھڑک راولاکوٹ سے تھا، نہ صرف ایک استاد بلکہ ایک کردار تھیں۔ وہ ایک ایسی شخصیت تھیں جو ہر دل کو چھو لیتی تھیں۔ خوش اخلاقی ان کی پہچان تھی، ملنساری ان کا زیور تھی، اور قابلیت ان کی شناخت تھی۔ وہ اپنے پیشے سے بے حد لگاؤ رکھتی تھیں۔ چند سال قبل وہ امریکہ ریسرچ ورک کے سلسلے میں بھی گئی تھی ، جہاں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ان کی کلاس روم میں موجودگی طلبہ کے لیے حوصلہ، محبت اور علم کا امتزاج ہوتی تھی۔ ان کی مسکراہٹ دلوں کو تسکین دیتی اور ان کا پڑھانے کا انداز روشنی بکھیر دیتا۔
کاش اس صبح وہ جان پاتیں کہ آگے موت ان کا انتظار کر رہی ہے، کاش وہ لمحہ ٹل جاتا، کاش قدرت تھوڑی مہلت دے دیتی۔ مگر تقدیر کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔ وہ جب گھر سے نکلیں تو دل میں یقیناً اپنی کلاس کی تیاری، طلبہ کے چہروں کی مسکراہٹ اور علم کے چراغ جلانے کا جذبہ لیے نکلی ہوں گی، مگر انہیں کیا معلوم کہ یہ سفر ان کی زندگی کا آخری سفر بننے جا رہا ہے۔
آج راولاکوٹ اشکبار ہے۔ طلبہ سوگوار ہیں۔ پونچھ یونیورسٹی کی راہداریوں میں اداسی چھائی ہوئی ہے۔ علم کی ایک روشنی بجھ گئی ہے۔ ایک چراغ جس کی لو ہر دل کو گرما رہی تھی، اچانک سرد ہو گیا۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ڈاکٹر گل لالہ کے درجات بلند فرمائے، انہیں شہادت کے اعلیٰ رتبے پر فائز کرے، ان کے والدہ کو یہ صدمہ سہنے کی ہمت عطا فرمائے، اور بہن بھائیوں کو صبر و استقامت عطا کرے۔
بے شک ایسے لوگ جسمانی طور پر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں، مگر ان کی یادیں، ان کی خوشبو، ان کی دعائیں اور ان کا علم ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔
٭٭٭
Share this content:


