آزادکشمیر کی فضاؤں میں ایک ایسا انکشاف گونج رہا ہے جس نے ہر باشعور شہری کے دل کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ کہانی محض تین حاضر سروس افسران، ایک بیوروکریٹ، ایک سینئر پولیس افسر اور ایک ضلعی جج کی ہی نہیں، یہ ان سینکڑوں چہروں کی کہانی ہے جنہوں نے جعلی ڈومیسائل کے سہارے اس خطے کے وسائل پر قبضہ کیا، مقامی کشمیری نوجوانوں کے مستقبل کو لوٹا اور ان کے خوابوں کو بیروزگاری اور مایوسی کے اندھیروں میں دفن کر دیا۔ جعلی کاغذات کے بل بوتے پر صرف نوکریاں ہی نہیں، اسمبلی کی نشستیں بھی ہتھیائی گئیں اور اصل کشمیری کواپنے ہی وطن میں پرایا بنا دیا گیا۔ ان تین جعلسازوں کی دستاویزات جلد ہی پبلک بھی کر دی جائیں گی۔
یہ وہی سرکاری و سیاسی دھوکہ ہے جس کے خلاف جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی دو سال سے نعرہ بلند کر رہی ہے۔ کمیٹی کا مؤقف روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ 25 فیصد کوٹے کے نام پر غیر کشمیری اور جعلی دستاویزات والے افراد کو نوازا جا رہا ہے، لہٰذا نادرا کے ذریعے تمام مہاجرین مقیم پاکستان کی دستاویزات کی دوبارہ جانچ کی جائے، اور ہر اصلی کشمیری مہاجر کے شناختی کارڈ پر "باشندہ ریاست جموں و کشمیر” درج ہونا لازمی قرار دیا جائے تاکہ جعلی کشمیریت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو۔ ایکشن کمیٹی کہتی ہے کہ یہ لڑائی محض ایک ایجنڈا نہیں بلکہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کی بقا کی جنگ ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ایکشن کمیٹی نے ہر فورم پر اشرافیہ کی لوٹ کھسوٹ، جعلی بھرتیوں، جعلی شناخت اور عوامی وسائل پر قبضے کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی حمایت اس کے ساتھ ہے جبکہ سیاسی جماعتیں چاہے وہ رائے ونڈ، بنی گالہ یا لاڑکانہ کے درباروں کی برانچز ہوں یا مقامی دھڑے، اس عوامی مزاحمتی تحریک کے خلاف سازشیں، تقسیم اور الزام تراشی کی مہمات میں مصروف ہیں۔ کمیٹی پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ آزادکشمیر کو صوبہ بنانے یا آزادکشمیر کے انتظامی و آئینی ڈھانچے کے خاتمے سازش کا حصہ ہے، مگر سچ یہ ہے کہ صوبے کا نظریہ ماضی قریب میں پیپلز پارٹی کے رہنما مظفرآباد پریس کلب میں خود پیش کر چکے ہیں اور یہی تجویز مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت بھی دے چکی ہے۔ 5 اگست 2019ء کو جب بھارت نے آئینی حملہ کر کے کشمیری شناخت چھیننے کی کوشش کی تو آزادکشمیر کے حکمران اور سیاسی جماعتیں راجہ فاروق حیدر خان کی قیادت میں خاموش تماشائی بن گئیں۔ اب یہ جماعتیں اگر آئینی ڈھانچے کے تحفظ کا ڈھونگ رچائیں تو عوام اسے کیسے قبول نہیں کریں گے؟
اصل حقیقت یہ ہے کہ اس وقت آزادکشمیر میں اگر کوئی قوت عوامی طاقت کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ یا مرکزی جماعتوں کے غیر آئینی فیصلوں کشمیری شناخت پر حملے کے سامنے کھڑی ہو سکتی ہے تو وہ صرف اور صرف عوامی ایکشن کمیٹی اور قوم پرست پارٹیوں کے چند دھڑے ہیں۔ باقی جماعتیں ایک بار پھر ایسے کسی امتحان میں یا تو خاموش ہو جائیں گی یا عوام کو یہ دلیل دیں گی کہ قومی مفاد میں یہ اقدام برداشت کرنا پڑا۔
یہ بات بھی سب پر عیاں ہے کہ مہاجرین مقیم پاکستان کشمیری عوام کے دلوں میں عزت رکھتے ہیں، ان کی قربانیاں تاریخ کا حصہ ہیں، لیکن جعلی دستاویزات پر کھڑی کی گئی "مصنوعی کشمیریت” کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں۔ ایکشن کمیٹی کو اپنے ایجنڈے میں آزادکشمیر میں بسنے والے ان 1989ء اور بعد میں آنے والے مجاہدین و دیگر مہاجرین خاندانوں کے جائز حقوق، انکے لیے اسمبلی کی نشستیں، ملازمتوں کا کوٹہ، مکانیت اور روزگار کو اپنے ایجنڈے میں مزید نمایاں کرنا ہوگا تاکہ یہ جدوجہد محض کرپشن کے خلاف نہیں بلکہ انصاف اور برابری کی حقیقی علامت کے طور پر ابھرے۔
تین حاضر سروس افسران کے حالیہ جعلسازی کے انکشاف نے اس حقیقت کو پختہ کر دیا ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی کا مؤقف درست ہے۔ جعلی ڈومیسائل پر قبضہ کرنے والے یہ چند نام ہی نہیں، سینکڑوں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اس خطے کو لوٹا ہے۔ یہ جنگ صرف چند چہروں کو بے نقاب کرنے کی نہیں، بلکہ پورے نظام کو صاف کرنے کی ہے۔ اگر آج عوام نے اس سازش کو دفن نہ کیا تو کل ان کی شناخت، ان کا حق اور ان کا مستقبل سب کچھ اشرافیہ اور جعلی کشمیریت کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔
٭٭٭
Share this content:


