جس قوموں اور وطنوں کی دنیا جہاں کسی مخصوص خطہ زمین پر بسنے والے سبھی مذاہب کے افراد کو ملا کر ایک قومی ریاست تشکیل دی جاتی ہے میں قومی مفادات کو سب سے آگے رکھا جاتا ہے۔
قومی ریاستوں میں قومی مفادات ہی سب سے عزیز ترین اور عظیم تر چیز گردانی جاتی ہے جس کی حفاظت اُس قومی ریاست کا ہر فرد اپنے ایمان کا لازمی حصہ مانتا ہے۔
یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اس سرمایہ دارانہ نظام میں قومی یا ریاستی مفادات دراصل حکمران طبقے کے مفادات ہوتے ہیں اور ریاست اصلاً جبر کا ایک آلہ ہوتی ہے جسے ہم ہر گزرتے دن ہر روز اپنی آنکھوں سے بطور ثبوت دیکھتے آ رہے ہیں۔ مگرایک عام انسان کے لیے وطن سے محبت ایک فطری جذبہ ہے جسے ہر انسان قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اپنے وطن کے خلاف کسی بھی طرح کی ہرزہ سرائی برداشت نہیں کی جاتی اور ضرورت پڑنے پر بیرونی حملہ آوروں کے خلاف عوام سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتی ہے۔
مگر تاریخ ہمیں کچھ اور انسانی کرداروں سے بھی مانوس کرواتی ہے جن کے خمیر میں مذہب، آزادی ، قوم، وطن، محبت، عزت جیسی کوئ چیز نہیں ہوتی۔ ایسے کردار صرف اپنے مفادات دیکھتے ہیں اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے ہر وہ کام کر گزرتے ہیں جو ایک عام انسان کے شاید وہم و گمان میں بھی نہ ہو۔
تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ ہر قوم میں کچھ ہوس پرست اور مراعات و اقتدار کے لالچی افراد پیدا ہوتے رہے ہیں جنہوں نے اپنی مراعات و اقتدار کے لیے ہمیشہ اپنی قوموں سے غداری کی اور بیرونی حملہ آوروں کا ہر طرح سے ساتھ دیا۔
ناروے میں ایسے ہی کردار کے حامل ایک شخص کا نام ویدکون کوئسلنگ (Vidkun Quisling) تھا۔ کوئسلنگ ناروے کی فوج میں میجر رہا اور بعد میں ملکی سیاست کے میدان میں داخل ہوا۔ اپریل 1940 کو جب ہٹلر نے ناروے پر حملہ کیا تو کوئسلنگ نے جرمنوں کا ساتھ دیا اور ہٹلر نے اسے ناروے کی کٹھ پتلی حکومت کا سربراہ بنا دیا۔
کوئسلنگ نے اپنی ہی قوم کو دھوکہ دے کر نازیوں کی مدد کی، یہودیوں کی گرفتاری اور ناروے کو نازیوں کے کنٹرول میں دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ یوں ناروے کا کوئسلنگ جرمنوں سے بھی پہلے جرمن بننے کا اعلان کرنے لگا۔
پھر جنگ ختم ہوئی ۔ جنگوں نے ایک دن ختم ہی ہونا ہوتا ہے، جنگیں مستقل نہیں ہو سکتیں۔ جنگ کے خاتمے کے بعد کوئسلنگ کو گرفتار کر لیا گیا اور اس پر غداری، قتل اور ملک دشمنی کے جرائم میں عدالت میں کیس چلے اور بعد میں ناروے کی عدالت نے اسے موت کی سزا سنائی اور 24 اکتوبر 1945 کو کوئسلنگ کو ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں گولی مار کر پھانسی دے دی گی۔
اس وطن فروشی اور غداری کی وجہ سے کوئسلنگ پورے خطے میں غدار اور وطن فروش مشہور ہوا حتی کہ کوئسلنگ کا نام انگریزی اور دیگر کی زبانوں میں غدار اور وطن فروش کے مترادف استعمال ہونے لگا۔
ناروے میں صرف ایک کوئسلنگ تھا مگر ریاست جموں کشمیر میں کافی سارے کوئسلنگ پیدا ہو چکے ہیں۔ مگر یہ یاد رکھا جائے کہ اس قوموں اور وطنوں کی دنیا میں کسی بھی قوم کو زیادہ وقت تک غلام اور محکوم نہیں بنایا جا سکتا یعنی قومی آزادی ایک فطری عمل ہے جسے مستقل پابندی نہیں کیا جا سکتا۔
ریاست جموں کشمیر کے جملہ کوئسلنگ کو ناروے کے کوئسلنگ کے کردار اور انجام کو یاد رکھنا چاہیے ۔ ریاستی عوام اور ریاستی مفادات پر دلالی عبرتناک ہو سکتی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والی نسلیں تاریخ کی کتابوں میں جموں کشمیر کے کوئسلنگ کے نام نفرت سے پڑھتی رہیں لہذا سدھرنے کا وقت ہے سدھرا جائے۔
٭٭٭
Share this content:


