نیپال کے آج کو سمجھنے کے لیے ماضی قریب کو کریدنا ضروری ہے۔ 2006 تا 2008 کے دوران ایک بڑی سیاسی تبدیلی رونما ہوئی جسے بورژوا جمہوری انقلاب کہا جا سکتا ہے۔ اس انقلاب کے نتیجے میں ڈھائی سو سالہ بادشاہت کا خاتمہ ہوا، نیپال ہندو ریاست سے سیکولر ریاست قرار پایا (یہ دنیا کی واحد ہندو ریاست تھی) اور ایک وفاقی جمہوری ریاست وجود میں آئی۔ مزدوروں، عورتوں اور قومی و ثقافتی اکائیوں کو پارلیمنٹ میں نمائندگی کا آئینی طریقہ فراہم کیا گیا۔
تاہم اس انقلاب کے بنیادی تقاضے، خصوصاً زرعی اصلاحات، کو آئینی اور قانونی موشگافیوں میں الجھا کر نظرانداز کر دیا گیا، جس نے کسانوں میں گہری مایوسی پیدا کی۔ اسی طرح ماؤ نواز گوریلوں کو فوج کا حصہ بنانے کے بجائے مالی ترغیبات کے ذریعے عام شہری کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا، جس سے فوج کی ہیئت میں کوئی بنیادی تبدیلی نہ آئی۔
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ سوویت یونین اور سوشلسٹ ریاستوں کے انہدام کے بعد نیپال پہلا ملک تھا جہاں کمیونسٹ عوامی جمہوری تحریک کے نتیجے میں ہونے والے انتخابات میں کامیاب ہوکر اقتدار تک پہنچے۔ یہ بڑی سیاسی و سماجی تبدیلی کمیونسٹوں کے دو بڑے نظری رجحانات کا نتیجہ تھی: ایک جانب ماؤ نواز پارٹی کی قیادت میں دیہی علاقوں میں مسلح جدوجہد، جسے ’’پرچندا پاتھ‘‘ کہا جاتا ہے، اور دوسری جانب کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (یو ایم ایل) کا غیر مسلح، شہری اور جمہوری انداز میں تحریک کو منظم کرنا۔
اسی تناظر میں، اس صدی کی پہلی دہائی میں ماؤ نواز رہنما پشپا کمل ڈاہل المعروف کامریڈ پرچندا وزیراعظم منتخب ہوئے، جنہیں سی پی این (یو ایم ایل) کی حمایت بھی حاصل تھی۔ بادشاہت کے خاتمے کے لیے دونوں دھڑوں کے اشتراکِ عمل نے نیپال کی سیاست میں بنیادی تبدیلی پیدا کی۔ لاکھوں سیاسی کارکنان نے کھٹمنڈو کو گھیرے میں لے کر بادشاہ کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ نیپال کی کمیونسٹ سیاست تاریخ کے مختلف مراحل پر شدید اختلافات اور بار بار کی تقسیم در تقسیم کا شکار رہی ہے۔
دیہی اور پسماندہ شہری علاقوں میں ماؤ نواز پارٹی اثر و رسوخ رکھتی ہے، جب کہ یو ایم ایل شہروں میں مزدور طبقے کی ایک بڑی حمایت کے ساتھ مضبوط سیاسی قوت ہے۔ نیپال کی کانگریس پارٹی بھی ایک مؤثر جماعت ہے جسے ترائی کے علاقوں میں عوامی تائید حاصل ہے، اور جو تاریخی طور پر بھارت سے نہایت قریبی تعلقات رکھتی ہے۔
اگرچہ نیپال بھارت اور چین کے درمیان واقع ہے، لیکن تاریخی اور جغرافیائی عوامل کی بنا پر بھارت کے ساتھ اس کے گہرے سماجی، سیاسی اور معاشی رشتے ہیں۔ لینڈ لاک ملک ہونے کی وجہ سے نیپال کی معیشت بڑی حد تک بھارت پر انحصار کرتی ہے، اور بھارت اس انحصار کو اپنے سیاسی و معاشی مفاد کے لیے استعمال بھی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترائی کے علاقوں کے علاوہ کو چھوڑ کر ملک بھر میں بھارت مخالف رجحانات عام ہیں۔ نیپال میں بھارتی کاروباری برادری بڑی تعداد میں موجود ہے، دونوں ملکوں کے درمیان آمدورفت بغیر ویزے کے ممکن ہے، اور بھارتی کرنسی کا لین دین بھی عام ہے۔
نیپال کی معیشت کا انحصار سیاحت، بیرونِ ملک محنت کشوں اور بھارت سے تجارتی تعلقات پر ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے برعکس، نیپال میں دائیں بازو اور مذہبی جماعتوں کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی سیکولر و جمہوری سوچ کو بنیاد قرار دینے والی جماعتوں پر مشتمل ہیں، اور کمیونسٹ پارٹیاں اقتدار اور اپوزیشن دونوں میں موجود ہیں۔
مگر بادشاہت کے خاتمے، آئینی جمہوریت کے قیام اور مذہبی ریاست کے خاتمے کے باوجود شہریوں کے معاشی حالات میں بہتری کے بجائے ابتری آئی ہے۔ گزشتہ سترہ برسوں میں تقریباً تمام جماعتیں اقتدار میں رہیں — کبھی کمیونسٹوں کی اتحادی حکومت، کبھی ماؤ نواز اور کانگریس پارٹی کا اتحاد، اور کبھی یو ایم ایل و کانگریس کی مخلوط حکومت۔ بے اصولی ہی اصول بن گئی ہے، جس نے عوامی امنگوں کو جھلسا کر رکھ دیا ہے۔
ان جماعتوں کے طرزِ عمل اور کارکردگی نے عوام خصوصاً نوجوانوں میں مایوسی اور غصہ کو عام کیا ہے۔ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر اظہار پر عائد پابندیوں نے عوامی صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا نہ صرف روزگار کی تلاش بلکہ محرومیوں کے اظہار کا پلیٹ فارم تھا۔ حکومت نے پہلے ڈیجیٹل سروسز ٹیکس لگایا اور پھر مکمل پابندی عائد کر دی، ایسے وقت میں جب معاشی مشکلات اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ناقابلِ برداشت ہو چکا ہے۔ بے روزگاری کی شرح 21 فیصد کے قریب ہے اور ہر سال آٹھ لاکھ سے زائد نوجوان مزدوری کے لیے ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں، جن کا حصہ نیپال کی جی ڈی پی میں 30 فیصد سے زائد ہے — جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے آواز دبانے پر غصہ کا لاوا پھٹ پڑا ہے۔
حکومت نے عوام کے لیے غصہ کے نکاس کا واحد راستہ — سوشل میڈیا — بند کیا، تو غصہ سڑکوں پر امڈ آیا۔ اب نظر نہ آنے والی مقداری تبدیلیاں کیفیتی تبدیلی کی صورت میں سامنے آ رہی ہیں۔ آج صورت حال یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہیں جس کی وجہ سے بے مہار قوتیں نے جنم لیا ہے، جن کا تحریکوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کا تجربہ نہایت ہی خام ہے۔نیپال کے نوجوانوں کے خود رو اور غیر منظم لیکن شدید ردِعمل نے وزیراعظم اور حکومت کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا۔ اسکول و کالج کے طلبہ، بے روزگار گریجویٹس، گگ اور اِنفارمل ورکرز اور سیاسی جماعتوں سے مایوس کارکن اس تحریک کی قیادت کر رہے ہیں۔ اگرچہ اپوزیشن میں بیٹھی کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (ماؤسٹ سنٹر) کے سربراہ کامریڈ پرچندا نے نوجوانوں کی حمایت اور حکومت کی مذمت کی ہے، مگر حقیقتا وہ اس تحریک سے تنظیمی طور پر لاتعلق ہیں جس سے لیفٹ کی حالات کو بھانپتے کی صلاحیت سے عاری ہونے کا عندیہ ملتا ہے۔ گو کہ بعض حلقوں کا الزام ہے کہ موجودہ احتجاج کو ماؤ نواز پارٹی اور کھٹمنڈو کے آزاد حیثیت میں انتخاب جیتے میئر کی پشت پردہ حمایت حاصل ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک پوری نسل، جو جمہوریت اور سماجی انصاف کے وعدوں پر پلی بڑھی، اس نظامِ سیاست و معیشت سے ٹکرا گئی ہے جو بار بار اس کے لیے ہر دروازہ بند کرتا ہے۔ نیپال کی جنریشن زی کی حالیہ بغاوت بے روزگاری، بے توقیری اور شکست خوردہ ترقیاتی ماڈل کے خلاف ہے۔ سوشل میڈیا پر پابندی نے اس صبر و برداشت کو توڑ ڈالا جس کے پردے میں حکمران بدعنوانی اور اقربا پروری کو حق سمجھنے لگے تھے۔
چاہے کوئی کچھ بھی کہے کہ سری لنکا اور بنگلہ دیش یا پھر نیپال کی حالیہ بغاوتوں کے کچھ پوشیدہ عوامل تھے، لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ عوام سے بے پرواہ حکمران اور ان کے مفادات کو سہارا دینے والا غیر متعلقہ نظام ایک نہج پر پہنچ کر عوام کے نشانے پر ضرور آتا ہے — چاہے وہ جمہوریت کے لبادے میں ہو یا اشتراکیت کے۔ پارلیمنٹ کے اندر سے مظاہرین پر گولی چلانے کا جواب ہمیشہ آگ ہی کی صورت آئے گا، خواہ اس میں جمہوریت کی علامت ہی کیوں نہ جھلس جائے۔
نیپال کے عوام آج بھی ’’جانا اندولن دوئم‘‘ (پیپلز موومنٹ) میں کیے گئے وعدوں کی پاسداری چاہتے ہیں۔ وہ اپنے خوابوں اور آدرشوں کو حکمرانوں کے قدموں تلے روندتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ روزگار اور سماجی انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اگر یہ نہ ملا تو کھٹمنڈو کی سڑکیں موجود ہیں۔ کل انہوں نے سیاسی قوتوں کی رہنمائی میں بادشاہ کو بھگایا تھا، آج جمہوریت کی آڑ میں بدعنوانی کرنے والوں کو بنا سیاسی تنظیم کے عبرت کا نشان بنایا ہے، اور آنے والے کل کا سیاسی منظرنامہ کیا ہو گا کہنا مشکل ہے لیکن سیاسی جماعتوں خصوصا بائیں بازو کی انقلابی تنظیموں کو عوام سے تعلق مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ سماج میں پھیلی بے چینی اور شدید ہوتے سیاسی و سماجی تضادات کا ادراک کریں اور انقلابی اصولوں اور آدرشوں سے انحراف کی روش ترک کریں۔ نیپال کے عوام نے یہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
٭٭٭
Share this content:


