جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی خطہ آزاد جموں کشمیر کے لاکھوں افراد کی امیدوں کا محور و مرکز بن گئی ہے اور یہ سارا عمل یوں ہی آناًفاناً نہیں ہوا بلکہ یہ ساری اس جہدوجہد کا تسلسل ہے جو کہ یہاں کے طلبہ،نوجوان ، تاجر ، وکلاء، مختلف یونینز، خواتین وحضرات، سول سوسائٹی غرض یہ کہ سماج کی ہر پرت کی مجموعی کوشش و کاوش کا نتیجہ ہے۔
کہیں دھائیوں سے اس سماج میں بے چینی و اضطراب موجود تھا اور مختلف تنظیمں اور سیاسی جماعتیں بدلاؤ کے لئے محو جہدوجہد رہیں ہیں مگر یہ سب مختلف گروہوں و ٹولیوں میں بٹ کے حکمرانوں کے خلاف جہدوجہد کرتے تھے۔ حکمران اشرافیہ طبقہ اس سارے معاملے پر کوئی سنجیدہ نوٹس نہیں لیتے تھے اور اپنی و اپنے اہل وعیال کی عیاشیوں کو مشئیت الٰہی سمجھ کر خواب خرگوش میں مست تھے کہ مہنگائی بڑھتی گئی اور اشیائے خوردونوش متوسط طبقہ کی پہنچ سے دور ہوتیں گئیں جب ساری تدبیریں ماند پڑنے لگی تو مایوسیوں و محکومیوں نے سر جوڑ لئے اضطراب کا ارتعاش کے ساتھ اکٹھ ہوا ایک کا درد دوسرے کو محسوس ہونےلگا۔
ایسے میں سوسائٹی کو برابری کی بنیاد پر دیکھنے کے خوابوں کی تعبیر دستک سنائی دینے لگی اس راہ میں برسوں جبر و استدلال میں کی گئی ریاضت جنبشِ لب مسکراہٹ سے کھلکھلا اٹھی جبٌروتسلط کے ستائے لوگ ایک لڑی کی مانند پروتے چلے گئے منتشر ٹولیاں اتحاد اجتہاد کی معنی بنتی گئیں ،قافلے کارواں کی شکل اختیار کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ پوری ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔۔
حکمران اشرافیہ جب خوآب خرگوش سے بیدار ہوئے سکتہ طاری ہو گیا اور آؤ دیکھا نہ تاؤ اس مرض کی تشخیص پرانے اور آزمودہ طرزِ علاج کو بروئے کار لاتے ہوئے بے بنیاد الزامات کو احکاماتِ کی صورت میں جاری کیا ۔۔۔۔ کہ غربت کے مارے جبر و تشدد سہتے یہ لوگ غیر ملکی ایجنڈا پر کار فرما ہیں اور یہ غردار ہیں، انکی مذہبی وابستگی بھی مشکوک ہے، ان سے ملکی سلامتی کو خطرات درپیش ہیں وغیرہ وغیرہ یہ وہ بیانیہ تھا جسے مارکیٹ میں سستے داموں فروخت کیا گیا اور حکمران طبقہ کے کارندوں نے بھانت بھانت کی بولیاں بول کر اس کی تشہیر کی مگر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی بلکہ اس طرح کے الزامات کے ری ایکشن میں لوگوں میں جڑت بڑھتی چلی گئی۔
جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے عوام کے وسیع تر مفاد میں ایک چارٹرڈ آف ڈیمانڈ حکومت کے سامنے رکھ دیا پہلے اس کو ناقابلِ عمل کہتے ہوئے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ،عوامی دباؤ بڑھا تو جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی میز پر بیٹھے(19 دسمبر 2023 ) حکومتی سرکلر جاری کیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات کو یکسو کیا جائے گا ۔وزراء پر مشتمل مذاکراتی کمیٹی بنائی جس کے کہیں ادوار چلے مطالبات کو تسلیم کیا گیا نوٹیفکیشن کے بجائے لہت ولال سے کام لیا گیا۔
اس عہد شکن طرزِ عمل کا جواب جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے پُرامن احتجاجی دھرنوں کی صورت میں دیا جس کو ناعاقبت اندیشی سے کچلنے کی ناکام کوشش کی پوری ریاست کے اندر گرفتاریاں کی گئی بے بنیاد کیس دائر کیے گئے لیکن عام آدمی کے حوصلے پست نہیں ہوئے وہ اس اتحاد کو اپنے آج اور آنے والی نسلوں کے کل کے لئے نوید نو سمجھتے تھے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے پورے آزاد کشمیر میں شٹر ڈاؤن و پہیہ جام ہڑتال کی کال دی جو سو فیصد کامیابی سے آگے بڑھ رہی تھی۔
آخر کار ریاست کو مجبوراً جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے درست مطالبات کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا پڑا اور مزاکرات کی میز پر آنا پڑا اور طویل گفتگو وشنید کے بعد 4 فروری 2024 کو (آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ) 9,10 مطالبات کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا نہ جانے وہ کون سی مجبوری تھی کہ بعد ازاں اس پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے بار ہا حکومت کو اس پر عمل درآمد کے لئے یاد دھانی کرائی لیکن سنی کو ان سنی کیا جاتا رہا ۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے جب دیکھا کہ حکومتی نمائندے ہمارے ساتھ کیے گئے معاہدات کی پاسداری نہیں کر رہی تو انہوں نے 11 مئی لانگ مارچ کی کال دے دی اس دوران حکومت نے اس کو بھی غیر سنجیدہ لیا اور اپنے ہی عوام پر ظلم وبربریت کے لئے ایف سی اور ہی سی فورسز بولانے کے لئے کمر کس لی جسے عوام نے یکسر مسترد کیا عام آدمی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو شہر اقتدار کی طرف لانگ مارچ شروع کیا حکومت خوش فہمی میں مبتلا تھی کہ میرپور ڈویژن کے فاقلوں کو روایتی ہتھکنڈوں سے روکنے کی کوشش بری طرح ناکام ہوئی وہ قافلے پونچھ ڈویژن میں داخل ہوئے شاندار کامیابی پر فقید المثال استقبال کے ساتھ میرپور و پونچھ ڈویژن کے قافلے مظفرآباد ڈویژن کی جانب پیش قدمی شروع کی تو اس دوران مزاکرات کے نام پر مزید صبر کا امتحان لیا گیا ۔
لیکن عوامی جوش وجذبے میں رتی برابر کمی نہیں آئی کارواں جن راستوں سے گزرتا تھا لوگوں کا شاندار استقبال،دیدنی تھا جوش و جذبے پٔرامید حوصلے اور بہت ساری دعائیں الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے ۔۔یہ کاروان ابھی کوہالہ کے مقام پر ہی پہنچا تھا کہ حکومت وقت نے گھنٹے ٹیک دیئے تھے اور 13 مئی 2024 کو حکومت وقت نے سارے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے نوٹیفکیشن جاری کیے بعض پوائنٹس پر قانونی معاملات کے لئے 6 ماہ کا وقت مانگا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے عوام کے وسیع تر مفاد کی خاطر ان شرائط کو مان لیا ۔
بجلی کے ٹیرف اور آٹے کے نوٹیفکیشن جاری کئے گئے اشرافیہ کی مراعات کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن کی سفارش بھی تسلیم کی گئی اور اندر 6 ماہ تمام معاملات کو یکسو کروانے کی یقین دھانی کرائی گئی قافلے شہر اقتدار میں داخل ہوئے تو حکمرانوں کے پاؤں تلے زمین نکل گئی انہوں نے خواب میں بھی کبھی اتنی تعداد میں لوگوں کو نہیں دیکھا تھا رنجیرز کی بلا اشتعال فائرنگ سے شہر اقتدار کے سینے میں تین نوجوان شہید ہوئے باوجود لاکھوں کے مجمع جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے اس دوران نہ صرف صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا بلکہ اس سارے معاملے کو بہت اعلیٰ ظرفی سے یکسو کیا۔ حکومت سے اچھی توقعات کے ساتھ پُرامن تاریخی پروگرام کر کے اس لانگ مارچ کا اختتام کیا ۔
لیکن چند مہینے گزرنے کے بعد حکومت نے اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے بجائے معمالات کو حل کرتی اظہارِ رائے کو بازورِ بازو دبانے کے لئے صدارتی آرڈیننس جاری کردیا گیا جسے آزاد کشمیر بھر کے عوام نے یکسر مسترد کردیا پہلے مرحلے پر قوم پرست جماعتوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا اس صدراتی آرڈیننس کی کاپیاں چوک چوراہوں میں جلائی گئی حکومت نے مظاہرین پر جبر و تشدد کیا اور متعدد افراد کو گرفتار کر دیا۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے ڈیڈ لائن دی بلاجواز گرفتار ساتھیوں کو رہا کیا جائے بصورت دیگر تمام انٹری پوائنٹ بند کردئیے جائیں گے۔
موسم کی شدت کو دیکھتے ہوئے حکومت نے سوچا یہ ممکن نہیں ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ دھرتی کے عظیم سپوتوں نے منفی درجہ حرارت کو اپنے جوش وجذبے سے شکست دے دی اور بروز اتوار 8 دسمبر 2024 کو صدارتی آرڈیننس واپس لیا گیا اور چارٹرڈ آف ڈیمانڈ کے 11 پوائنٹس پر نوٹیفکیشن جاری کیے گئے اور عملدرآمد کے لئے 6 ماہ کی یقین دھانی کرائی گئی ۔ لیکن تاحال اس پر کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی اور جب بھی اس پر عمل درآمد کی بات کی جاتی ہے تو اسے بیرونی ایجنڈے سے منسوب کیا جاتا ہے کبھی اسے راء فنڈنگ کے رنگ میں رنگ دیا جاتا ہے ان مطالبات کو عملی جامہ پہنانے سے ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
یہ مطالبات کرنے والے اسلام دشمن اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف ہیں وغیرہ وغیرہ یہ وہ سارے حلیے وبہانے ہیں جنہیں استعمال میں لا کر حکمران طبقے اپنی عیاشیوں کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اس کے لیے انہوں نے اپنے کہیں کارندے یا سہولت کار رکھے ہیں جو اس بیانیہ کو مارکیٹ میں پروان چڑھانے کے لئے بھرپور جتن کرتے ہیں لیکن بچارے مایوس ہو کر واپس لوٹتے ہیں ہیں عام آدمی اب اتنا باشعور ہو چکا ہے کہ وہ خود کھرے و کھوٹے کی پہچان کر سکتا ہے کیونکہ سبھی کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہو گیا کہ جب عوام کے حقوق و مفاد کی بات آئی تو سارے حکمران ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے ۔۔۔ بجائے وہ کارکنوں کے حقوق کی بات کرتے انہوں نے انہیں ذاتی پراپرٹی سمجھتے ہوئے حکم نامے جاری کیے گئے کہ وہ اس تحریک سے الگ ہو جاہیں ۔۔۔!
عوام نے حالات کی سختیاں جھیلیں اور لیڈران کو اپنا خون پسینہ، سرمایہ، اپنا کندھا اور سب سے بڑھ کر وقت دیا اس امید پر کہ کل مشکل وقت میں وہ ہمارے لئے ڈھال بنیں گے لیکن یہاں الٹی گنگا بہتی ہے وہ بجائے انکے ساتھ کھڑے ہونے کے انہیں اپنے حقوق مانگنے سے بھی ڈرا دھمکا رہےہیں ایسے میں عام آدمی یہ ضرور سوچتا ہے کہ سرمایہ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، غربت کا کوئی ساتھی نہیں ہوتا، امیروں اور غریبوں میں کھینچی گئی لکیر حیثیتوں کا تعین کرتی ہے طبقاتی نظام ہر شعبہ میں انسان کو ذلت ورسوائی کے سوا کچھ نہیں دیتا ہے وہ تعلیم کا میدان ہو وہ علاج معالجہ ہو وہ روزگار یا کاروبار ہو ۔
حکمران اشرافیہ طبقہ یہ ساری سہولیات سے اس لیے مستفید ہو رہا ہے کہ وہ غریب طبقہ کا استحصال کرنا جائز سمجھتے ہوئے مسلسل استحصال کرتا جا رہا ہے اس جبر و استحصالی نظام کے آگے ڈھال بنی ہو گی اپنے آج کے لئے اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کی خاطر یہ تحریک کوئی انقلابی تحریک نہیں لیکن نویدِ انقلاب ضرور بن سکتی ہے اٹھیں سب ملکر ظالمانہ نظام کو بدلیں حکمرانوں کی قائم کردہ غربت و امارات کی تفریق کو ختم کریں غریب عوام کے ٹیکسوں کو حکمرانوں کی عیاشیوں کے بجائے غریب عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کراہیں تبھی انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل ممکن ہو گی۔
٭٭٭
Share this content:


