صحافت اور خبر نویسی: ایک اصلاحی نظر ۔۔۔ خواجہ کبیر احمد

عصرِ حاضر میں میڈیا کا کردار ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ اہم اور مؤثر ہوتا جا رہا ہے۔ عوام کی رائے سازی، معلومات کی ترسیل اور طاقتور طبقات کا احتساب—یہ تمام ذمہ داریاں صحافت کے دائرہ کار میں آتی ہیں۔ تاہم، حالیہ برسوں میں صحافت اور محض خبر نویسی کے درمیان فرق دھندلا ہوتا جا رہا ہے۔

ہر وہ شخص جو کسی پریس ریلیز کو جوں کا توں نقل کر دے یا کسی واقعے کی سنی سنائی بات کو بیان کر دے، خود کو "صحافی” کہلوانے لگا ہے۔ یہ رجحان نہ صرف صحافت کے معیار کو مجروح کرتا ہے بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی متزلزل کرتا ہے۔

صحافت محض معلومات کی ترسیل نہیں بلکہ ایک مکمل پیشہ، ذمہ داری، اور فکری جدوجہد کا نام ہے۔ ایک تربیت یافتہ صحافی نہ صرف واقعات کا مشاہدہ کرتا ہے بلکہ اس کے پسِ منظر، سیاق و سباق اور ممکنہ اثرات کو بھی سمجھتا اور بیان کرتا ہے۔

وہ خبر کی تہہ میں جا کر سچائی تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ تحقیق، تصدیق، اور غیر جانب داری جیسے اصول صحافت کی بنیاد ہیں۔ اگر ان اصولوں سے انحراف کیا جائے تو نتیجہ قیاس آرائیوں، آدھی سچائیوں اور عوام کو گمراہ کرنے والی "خبروں” کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

دوسری جانب، صرف خبر نویسی یعنی بیان کو من و عن نقل کرنا یا سنسنی خیز عنوانات کے ذریعے توجہ حاصل کرنا، ایک سطحی عمل ہے۔ اس میں تحقیق اور تجزیے کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ ایسی "صحافت” دراصل معلومات کو پھیلانے کی بجائے صرف خبروں کا شور پیدا کرتی ہے۔ اس میں نہ تو عوامی مفاد کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ہی پیشہ ورانہ دیانت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔

آج کے دور میں جہاں سوشل میڈیا پر ہر دوسرا فرد خود کو صحافی کہلاتا ہے، وہاں یہ تمیز مزید ضروری ہو گئی ہے کہ اصل صحافت کیا ہے اور محض خبر نویسی کیا۔ صحافت کا اصل جوہر سوال اٹھانے میں ہے، تنقیدی جائزہ لینے میں ہے، اور ان موضوعات پر روشنی ڈالنے میں ہے جو عموماً نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔

ایک حقیقی صحافی طاقتور حلقوں کے خلاف بھی سچ بولنے کا حوصلہ رکھتا ہے، جبکہ ایک محض نقل نویس فرد صرف وہی باتیں دہراتا ہے جو اسے مہیا کی جاتی ہیں۔صحافت کو سنجیدگی سے لینے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس شعبے میں تربیت، تحقیق اور اخلاقی اصولوں کی پاسداری کو لازمی قرار دیں۔

صحافتی اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنے رپورٹرز اور لکھاریوں کو صرف خبر لکھنے کی نہیں، بلکہ تحقیقاتی صحافت، تنقیدی تجزیے، اور اخلاقی معیارات کی بھی تربیت دیں۔ اسی طرح قارئین و ناظرین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر خبر پر اندھا یقین نہ کریں بلکہ اس کے ماخذ، اندازِ پیشکش اور زبان و بیان پر غور کریں۔

المختصر، صحافت صرف خبر نویسی کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا شعوری عمل ہے جو سماج کو آئینہ دکھاتا ہے، طاقت کو جواب دہ بناتا ہے، اور عوام کو باخبر رکھنے کے لیے مسلسل سچ کی تلاش میں مصروف رہتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ صحافت اپنا اصل کردار ادا کرے تو ہمیں اس پیشے کو سطحیت سے نکال کر ایک باوقار، بااصول اور باشعور سمت میں لے جانا ہوگا۔

٭٭٭

Share this content: