جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کا چارٹر آف ڈیمانڈ صرف 38 نکات ہیں مگر یہ محض چند نکات نہیں، یہ عوام کی دہائی ہے۔
یہ ان نوجوانوں کی للکار ہے جو برسوں سے محرومی، ناانصافی اور اقرباء پروری کے اندھیروں میں جکڑے گئے۔ آج جب جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی میدان میں نکلی ہے اور اس کے ساتھ 90 فیصد سے زائد نوجوان کھڑے ہیں تو یہ کوئی عام احتجاج نہیں، یہ ایک انقلاب کی دستک ہے۔
نوجوان کہہ رہے ہیں کہ اب فیصلے برادری، سفارش اور سیاسی وفاداری پر نہیں بلکہ میرٹ پر ہوں گے۔ وہ اعلان کر رہے ہیں کہ اب سیاسی چمچہ گیری اور نوسربازی کے دروازے بند ہوں گے۔ یہ وہ اعلان ہے جو ریاست کے مستقبل کو بدل سکتا ہے، بشرطیکہ حکمران اس آواز کو سننے کا حوصلہ کریں۔کیا ایک چھوٹی سی ریاست اتنے وزیروں، مشیروں اور مراعات یافتہ حکمرانوں کا بوجھ اٹھا سکتی ہے؟ نہیں! عوام بھوک، بیروزگاری اور مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، اور ان کے حکمران فارچونر اور 4000 سی سی گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں۔
یہ ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے؟ اب وقت آ گیا ہے کہ وزیروں مشیروں کے عہدے ختم کیے جائیں تمام مراعات ختم کی جائیں اور ان اربوں روپے کو عوامی فلاح پر لگایا جائے۔اداروں کا حال بھی مختلف نہیں۔ احتساب بیورو، محتسب اور اینٹی کرپشن کے محکمے کرپشن ختم کرنے کے بجائے خود عوام کے لیے بوجھ بن گئے ہیں۔ ان سب کو ایک طاقتور اور مؤثر ادارے میں ضم کرنا ناگزیر ہے تاکہ احتساب تیز، شفاف اور بے لاگ ہو۔ اسی طرح سیکرٹریز کی فوج ظفر موج دراصل بجٹ کا ضیاع ہے۔ ایک شعبے کے لیے ایک سیکرٹری کافی ہے، باقی سب عہدے محض مراعات کے لیے رکھے گئے ہیں۔یہ عوام کے ٹیکس کا پیسہ ہے، یہ حکمرانوں کی ذاتی محنت کی کمائی نہیں۔
جب عوام پبلک ٹرانسپورٹ کے عذاب میں مبتلا ہوں تو وزیروں اور افسران کے لیے قیمتی گاڑیاں کس منطق کے تحت جائز ہیں؟ اگر وزیروں کو 1600 سی سی اور افسران کو 1300 سی سی گاڑیاں ملیں گی تو یہ عوام کو ایک واضح پیغام دے گا کہ حکمران بھی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔یہ مطالبات کسی خواب یا فریب کا نام نہیں۔ یہ ایک عملی اور حقیقت پسندانہ ایجنڈا ہے۔
اگر اسے تسلیم کر لیا جائے تو ریاست کے بجٹ میں کفایت شعاری آئے گی، عوام کا اعتماد بحال ہوگا اور سب سے بڑھ کر ایک ایسا نظام قائم ہوگا جہاں ہر فرد کو برابری کا حق ملے گا۔سوال صرف یہ ہے کہ کیا حکمرانوں میں اتنی جرات ہے کہ وہ اپنے اقتدار کی آسائشیں چھوڑ کر عوام کے ساتھ کھڑے ہوں؟ یا پھر یہ آواز بھی ماضی کی طرح دبائی جائے گی؟یاد رکھیں، یہ اب وہ وقت نہیں جب آوازیں دبا دی جائیں۔
نوجوانوں کی للکار اب خاموش نہیں ہوگی۔ یہ وہ نسل ہے جو تبدیلی کے لیے نکلی ہے اور جب نوجوان اٹھ کھڑے ہوں تو تاریخ کا رخ بدلتا ہے۔ اگر حکمرانوں نے اس وقت کو نہ پہچانا تو کل کا طوفان سب کچھ بہا لے جائے گا۔ یہ انقلاب کی دستک ہے، اور دستک ہمیشہ دروازہ کھولنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
Share this content:


