عوامی حقوق کی تحریک ! پس منظر ،موجودہ صورتحال اور مستقبل کی حکمت عملی ۔۔۔ خواجہ کبیر احمد

جموں کشمیر میں عوامی تحریک 9 مئی 2023 کو راولاکوٹ سے شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے پورے خطے میں پھیل گئی۔ اس کے نتیجے میں 16-17 ستمبر 2023 کو جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کا قیام مظفرآباد میں عمل میں لایا گیا۔

یہ تحریک آج تک دو سال سے زیادہ عرصہ سےمکمل پرامن انداز میں جاری ہے، تحریک کے دوران حکومت نے متعدد مرتبہ وعدے کیے، مطالبات کو تسلیم کیا اور نوٹیفیکیشن جاری کیے، لیکن عملی طور پر کسی بھی مرحلے پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوا۔ تاہم عوام کو آٹے کی قیمتوں میں کمی اور بجلی کے نرخوں میں کمی کے طور پر کچھ نتائج ملے، جو تحریک کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔اس وقت تحریک 38 نکات پر مشتمل چارٹر آف ڈیمانڈ کے تحت جدوجہد کر رہی ہے۔ اس کے تمام مطالبات کو پاکستان کے وزراء نے جائز قرار دیا ہے۔ تاہم دو اہم مطالبات پر اب بھی ڈیڈ لاک برقرار ہے۔

یہ تحریک اپنے آغاز سے لے کر آج تک بنیادی حقوق کے حصول کے لیے مسلسل، پرامن اور اصولی انداز میں آگے بڑھ رہی ہے، اور عوام کی شعوری شمولیت، اتحاد اور قربانی اس کی اصل طاقت ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کے تحریک کو کس حکمت عملی سے جاری رکھا جاۓ آگے بڑھاجاۓ اور عام انسانوں کو بنیادی حقوق کے ساتھ ایک پر سکون اور باعزت زندگی مل سکے،قوموں کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کوئی بھی حق، انصاف یا اختیار آسانی سے نہیں ملتا۔ عوام جب اپنے حقوق کے لیے یکجا ہو کر پرامن مگر پُرعزم انداز میں جدوجہد کرتے ہیں تو بالآخر ریاستوں اور حکومتوں کو بھی ان مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرنا پڑتا ہے۔

مگر یہ جدوجہد تب ہی کامیاب ہوتی ہے جب اس کے مقاصد واضح، لائحۂ عمل درست اور عوامی شعور بیدار ہو۔جموں کشمیر کے عوام آج ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں اُن کے معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق غصب ہو چکے ہیں۔ حکمران اشرافیہ اپنی مراعات یافتہ عیاش زندگی میں مشغول ہےاور عوام اپنے حقوق کے حصول کے لیے سڑکوں پر ہیں ایسے میں ضروری ہے کہ عوام جذبات کے بہاؤ میں آنے کے بجائے عقل و شعور کے ساتھ تحریک کا حصہ بنیں رہیں اور یہ سمجھیں کہ اصل لڑائی کسی فرد یا جماعت کے خلاف نہیں بلکہ اس غیرمنصفانہ نظام کے خلاف ہے جو دہائیوں سے اُن کے وسائل پر قابض اور اُن کے حقوق سے غافل ہے۔ اس وقت اس عوامی تحریک کے دو بڑے مطالبات ہیں۔

مہاجرین مقیم پاکستان کی نشستوں ،اشرافیہ اور مخصوص طبقے کو حاصل مراعات کا خاتمہ:

پہلے مطالبے پر کسی قسم کا سمجھوتہ ممکن نہیں، کیونکہ یہی مراعات اس نظام کی جڑ ہیں جو عوام کو مسلسل کمزور اور بے اختیار رکھتا آیا ہے۔ جب تک ان مراعات کا خاتمہ نہیں ہوتا، عوامی وسائل کا منصفانہ استعمال اور عام شہری کی ترقی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔البتہ دوسرے مطالبے یعنی مہاجرین کی نشستوں کے مسئلے کو ایک آئینی اور قانونی طریقۂ کار سے حل کرنا زیادہ دانشمندانہ حکمتِ عملی ہے۔ اگر اس معاملے کو فوری طور پر حل کروانا ممکن نہ ہو تو کم از کم یہ طے کر لینا چاہیے کہ اس پر ایک آزاد، غیرجانبدار اور ماہرین پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے جو آئینی بنیادوں پر اس کا حل تجویز کرے۔

یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ کوئی بھی تحریک اُس وقت تک دیرپا کامیابی حاصل نہیں کر سکتی جب تک عوام اس کا بوجھ اپنے کندھوں پر نہ اُٹھائیں۔ جلسوں میں شرکت، پُرامن احتجاج، تحریری و شعوری حمایت، اور اپنی آواز کو متحد کر کے بلند کرنا وہ اوزار ہیں جن سے تبدیلی کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ عوام کو چاہئیےکہ وہ وقتی نعروں اور جذباتی اعلانات کے بجائے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی اصولوں پر مبنی جدوجہد کا حصہ بنیں رہیں۔ یہ تحریک محض آج کے مسائل حل کرنے کے لیے نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر اور منصفانہ معاشرہ قائم کرنے کی کوشش ہے۔یاد رکھئیے کوئی بھی تحریک اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک عوام صرف تماشائی بنے رہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ حقیقی تبدیلی ہمیشہ اُس وقت ممکن ہوئی جب عوام نے اپنی اجتماعی طاقت کو پہچانا، منظم انداز میں اُسے استعمال کیا، اور اصولی موقف پر ثابت قدم رہے۔ خطہ جموں کشمیر بھی آج اسی موڑ پر کھڑا ہے جہاں محض نعروں اور تقاریر سے کچھ حاصل نہیں ہوگا بلکہ ہر شہری کو اپنا کردار عملاً ادا کرنا ہوگا۔سب سے پہلا اور بنیادی فریضہ یہ ہے کہ عوام سیاسی اور آئینی شعور حاصل کریں۔ تحریک کے مطالبات، اُن کی آئینی حیثیت، اور اُن کے عوامی مفاد کو سمجھنا لازمی ہے۔

جب عوام خود اپنے حقوق کی تفصیل جانتے ہیں تو کوئی بھی طاقت اُنہیں گمراہ نہیں کر سکتی۔ گھروں میں، تعلیمی اداروں میں، محفلوں اور مساجد میں ان مسائل پر گفتگو کریں تاکہ شعور کی یہ آگ ہر ذہن تک پہنچے۔جدوجہد کا اصل حسن اُس کی پُرامن اور مہذب روش میں ہے۔ تاریخ میں وہی تحریکیں دیرپا اثر چھوڑتی ہیں جنہوں نے نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا۔ توڑ پھوڑ، گالی گلوچ اور جذباتی ردِعمل نہ صرف تحریک کو کمزور کرتے ہیں بلکہ مخالف قوتوں کو اسے بدنام کرنے کا موقع دیتے ہیں۔ احتجاج ضرور کریں، مگر مہذب انداز میں، اور باوقار طرزِ عمل کے ساتھ۔طاقت تقسیم میں نہیں، اتحاد میں ہے۔

بدقسمتی سے اکثر عوامی تحریکیں اس لیے ناکام ہو جاتی ہیں کہ وہ اندرونی اختلافات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مخالف قوت اتحاد توڑنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرے گا۔ ذاتی پسند و ناپسند سے بالاتر ہو کر اجتماعی مفاد کو ترجیح دیں۔ اگر کوئی اختلاف ہو بھی جائے تو اُسے بیٹھ کر بات چیت سے حل کریں، سڑکوں اور سوشل میڈیا پر نہیں۔جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کوئی منتخب قیادت نہیں بلکہ عوامی آوازوں کی ترجمان ایک رضاکار ٹیم ہے جو اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھے عوامی حقوق کی جدوجہد میں پیش پیش ہے عوام کے ان محسنوں کا احترام ضروری ہے، لیکن اندھی تقلید نقصان دہ ہو سکتی ہے۔

عوام کا کام صرف نعرے لگانا نہیں بلکہ ان سے سوال کرنا، اُن سے شفافیت کا مطالبہ کرنا اور اُنہیں احتساب کے دائرے میں رکھنا بھی ہے۔ ان سے باقاعدہ رابطے میں رہیں، ان کے فیصلوں کو سمجھیں، اور جہاں ضرورت ہو مشورہ اور اصلاح کی آواز بلند کریں۔کامیاب تحریکیں وہی ہوتی ہیں جو معاشی دباؤ کے باوجود ڈٹی رہتی ہیں۔ اگر عوام اپنے وسائل پر انحصار کرنا سیکھ لیں تو کوئی حکومت اُنہیں کمزور نہیں کر سکتی۔ مقامی معیشت کو مضبوط کریں، اپنی مصنوعات اور کاروبار کو ترجیح دیں، اور اجتماعی امداد و تعاون کا نظام تشکیل دیں۔

آج کا دور محض احتجاج کا نہیں بلکہ منظم، باشعور اور مستقل مزاج عوامی جدوجہد کا دور ہے۔ اگر اجتماعی طاقت کو صحیح سمت میں استعمال کیا، اپنے اصولوں پر ڈٹے رہے، اور ہر سطح پر اپنی ذمہ داریاں پوری کیں، تو کوئی طاقت انصاف، برابری اور حق سے محروم نہیں رکھ سکتی۔ جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی یہ تحریک ہر عام شہری کی تحریک ہے۔ اور جب ہر شہری اپنے حصے کی شمع جلائے گا، تو روشنی یقینی ہے۔

تحریکوں کی کامیابی صرف سڑکوں پر احتجاج کرنے یا نعرے لگانے سے وابستہ نہیں ہوتی، بلکہ اصل امتحان اُس وقت شروع ہوتا ہے جب عوامی جدوجہد مذاکرات کی میز تک پہنچتی ہے۔ وہاں جذبات نہیں بلکہ دلیل، حکمت اور بصیرت کام آتی ہے۔ اگر عوام اپنے نمائندوں کے ذریعے مذاکرات میں مضبوط، مدلل اور منظم موقف پیش کریں تو وہ نہ صرف اپنے مطالبات منوا سکتے ہیں بلکہ آئندہ کے فیصلوں پر بھی اثرانداز ہو سکتے ہیں ہماری معاشرتی سوچ میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ مذاکرات کرنا کمزوری کی علامت ہے۔

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مذاکرات کسی بھی جدوجہد کا لازمی مرحلہ ہوتے ہیں۔ دنیا کی بڑی بڑی تحریکیں جب کامیاب ہوئیں تو وہ اسی میز پر بیٹھی جہاں اختلاف کے باوجود فریقین نے گفت و شنید کے ذریعے راستہ نکالا۔ مذاکرات کا مقصد پسپائی نہیں بلکہ اپنے اصولی مؤقف کو اداروں کے سامنے مدلل انداز میں پیش کرنا ہوتا ہے۔ہر تحریک کے کچھ بنیادی اور غیرمذاکراتی مطالبات ہوتے ہیں۔ ہمارے لیے اشرافیہ کی غیرمنصفانہ مراعات کا خاتمہ ایسا ہی ایک اصولی مطالبہ ہے جس پر کسی قسم کی رعایت یا سمجھوتہ تحریک کی روح کو کمزور کر دے گا۔

مذاکرات میں ہمیشہ یہ واضح کر دیں کہ عوامی وسائل پر قبضہ اور مراعات یافتہ نظام کی موجودگی کسی صورت قبول نہیں۔دوسری طرف کچھ مطالبات ایسے ہوتے ہیں جنہیں فوری طور پر حل کروانا ممکن نہیں ہوتا، لیکن اُن پر آئینی و قانونی عمل درآمد کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر مہاجرین کی نشستوں کا مسئلہ۔ اس پر اصرار کرنے کے بجائے ایک آزاد آئینی و قانونی کمیٹی کے قیام پر اتفاق کرنا دانشمندانہ راستہ ہوگا، جو بعد میں اس مسئلے کا پائیدار حل فراہم کرے گی۔مذاکرات میں جذباتی تقریر نہیں ہوتی۔ وہاں ٹھوس اعداد و شمار، آئینی نکات، اور عوامی رائے کی بنیاد پر موقف پیش کرنا زیادہ اثر رکھتا ہے۔

یقیناً جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے پاس باقاعدہ تحقیق شدہ دستاویزات ہین، جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ مطالبات صرف نعرے نہیں بلکہ قانونی، معاشی اور سماجی ضرورت ہیں۔ مذاکرات جب بھی ہوں اس دوران ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ادارے عوامی دباؤ کو محسوس کریں۔ اگر عوام بیدار، منظم اور پُرامن انداز میں تحریک کا ساتھ دے رہے ہوں تو مذاکراتی میز پر بیٹھے نمائندوں کی آواز زیادہ مؤثر ہو جاتی ہے۔ اس لیے عوام کو چاہیے کہ وہ مذاکراتی عمل کے دوران بھی سرگرم رہیں، خاموش نا رہیں، اور اجتماعی دباؤ کے ذریعے اپنے نمائندوں کے ہاتھ مضبوط کریں۔

مذاکرات کوئی جنگ نہیں بلکہ عقل و حکمت کی آزمائش ہوتے ہیں۔ جو قومیں دلائل، اتحاد اور بصیرت کے ساتھ گفت و شنید کرتی ہیں، وہی اپنے حقوق حاصل کرتی ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ جذبات کے ساتھ ساتھ شعور، تیاری اور ٹھوس موقف کو اپنی طاقت بنائیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے تحریک مضبوط بنیادوں پر کھڑی رہتے ہوۓ آنے والی نسلوں کو ایک منصفانہ نظام فراہم کر سکتی ہے یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ کسی بھی عوامی تحریک کی بنیاد صرف عوامی نعرے یا مطالبات نہیں ہوتے بلکہ اُس کی اصل طاقت اُس کی قیادت کا کردار، شفافیت، اور عوامی اعتماد ہوتا ہے۔

تحریکیں اُس وقت تک زندہ اور موثر رہتی ہیں جب تک اُن کی قیادت دیانت دار، جوابدہ اور اصولوں کی پابند ہو۔ جیسے ہی قیادت ذاتی مفاد، اقتدار کی لالچ یا مبہم طرزِ عمل کا شکار ہو جاتی ہے، تحریک کا اعتماد ٹوٹنے لگتا ہے اور دشمن قوتیں اُس کمزوری کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی مکمل اخلاص کے ساتھ رضاکارانہ طور پر اس تحریک کی ترجمان ہے ان کی قیادت کسی مراعات یافتہ عہدے کا نام نہیں بلکہ ایک بھاری ذمہ داری ہے۔

عوام نےاپنے حقوق اور مستقبل کے لیے اپنی ترجمانی اس رضاکار قیادت کے سپرد کی ہے، اس لیے قیادت کو ہمیشہ یہ احساس رکھنا چاہیے کہ وہ ایک امانت کی محافظ ہے، مالک نہیں۔ قیادت کے ہر فیصلے کا محور دیرپا عوامی مفاد ہونا چاہیے، نہ کہ وقتی فائدہ۔شفافیت کسی بھی تحریک کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ جب قیادت اپنے فیصلوں، مذاکرات، اور حکمتِ عملی کو عوام سے چھپاتی ہے تو افواہوں کو جنم ملتا ہے اور عوامی اعتماد متزلزل ہو جاتا ہے۔

قیادت کو چاہیے کہ وہ تمام فیصلوں اور پیش رفت سے عوام کو باخبر رکھے۔ مذاکرات کی تفصیلات، اور تحریک کے آئندہ اقدامات واضح اور کھلے انداز میں بیان کیے جائیں۔احتساب دشمنی نہیں، اصلاح کا عمل ہے۔ قیادت کو عوام کے سامنے جواب دہ ہونا چاہیے، کیونکہ یہی جمہوری اور اصولی رویہ تحریک کو مضبوط رکھتا ہے۔ اگر کسی نمائندے سے غلطی ہو جائے تو عوام کو حق ہے کہ وہ اس پر سوال کریں اور اس کی اصلاح کا مطالبہ کریں۔

تحریک کے اندر ایک خودکار احتسابی نظام قائم کیا جائے جو قیادت اور کمیٹی دونوں کو جواب دہ بنائے۔تحریک کو سب سے بڑی قوت عوامی حمایت اور اعتماد سے ملتی ہے۔ اگر عوام کا یقین قیادت سے اُٹھ جائے تو بہترین حکمتِ عملی بھی بے اثر ہو جاتی ہے۔ اس وقت جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کو مکمل عوامی اعتماد حاصل ہے جس کی وجہ انکا اخلاص ،عاجزی، اور قربانی کا مظاہرہ ہے کمیٹی ممبران اور عوام کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں قیادت عوام کے ساتھ بیٹھتی ہے، اُن کی بات سنتی ہے، اور اُن کے دکھ سکھ میں شریک ہے۔

یہاں سے واضح ہوتا ہے کہ ایسے لوگ اپنے ذاتی مفاد کے۔لیے نہیں بلکہ اپنے عوام کے حقوق کے حصول کےلیے میدان میں أترے ہیں ،تاریخ میں وہی قیادتیں امر ہوئیں جنہوں نے ذاتی خواہشات کو پسِ پشت ڈال کر عوامی مفاد کو ترجیح دی۔ اگر تحریک کا کوئی رہنما ذاتی مفاد کو ترجیح دینے لگے تو تحریک کو نقصان پہنچنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس وقت قیادت کے لیے سب سے بڑا امتحان یہی ہے کہ وہ ذاتی فائدے کو عوامی بھلائی پر قربان کر سکے۔

گویا شفافیت، جواب دہی، دیانت اور عوامی ربط ہی وہ ستون ہیں جن پر کسی بھی تحریک کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ اگر قیادت ان اصولوں پر عمل کرے تو تحریک نہ صرف کامیاب ہوتی ہے بلکہ ایک ایسی عوامی طاقت بن جاتی ہے جسے کوئی حکومت یا نظام کمزور نہیں کر سکتا۔عوامی تحریکیں ہمیشہ مرحلہ وار ہوتی ہیں کوئی بھی تحریک ایک ہی مرحلے میں اپنے نتائج حاصل نہیں کر سکتی جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی عوامی حقوق کی حالیہ تحریک بھی مرحلہ وار ہی آگے بڑھے گی کیونکہ عوامی حقوق تحریک کا مقصد کبھی بھی صرف وقتی مسائل کا حل ہی نہیں ہوتا، بلکہ ایک ایسا منصفانہ اور شفاف نظام قائم کرنا ہوتا ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے تحفظ اور انصاف فراہم کرے۔

اس مرحلے میں عوام کی جدوجہد کو صرف سڑکوں پر محدود نہیں رکھا جا سکتا، بلکہ اسے سیاسی، قانونی اور نظامی اصلاحات کے میدان میں بھی لے جانا ضروری ہے۔حقیقی تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ عوام اپنے نمائندوں کو نہ صرف منتخب کریں بلکہ اُن کی نمائندگی کے ذریعے نظام میں مؤثر کردار ادا کریں۔ عوام کو چاہیے کہ وہ ایسے افراد اور جماعتوں کو ووٹ دیں جو اصولی موقف پر قائم ہوں، اور عوامی مفاد کو ذاتی یا سیاسی فائدے پر ترجیح دیں۔ کمیٹی اور لیڈرشپ کو چاہیے کہ وہ سیاسی لائحہ عمل مرتب کریں جس سے تحریک کی طاقت قانونی اور انتظامی سطح پر مؤثر ہو۔

تحریک کے بنیادی مطالبات کو قانونی دائرے میں لے آنا سب سے مؤثر قدم ہے۔ اشرافیہ کی غیرمنصفانہ مراعات کا خاتمہ، مہاجرین کی نشستوں کا خاتمہ اور عوامی حقوق کی ضمانت صرف آئینی اصلاحات اور قانون سازی سے ممکن ہے۔عوامی نمائندے اور کمیٹی ماہرین کے ساتھ مل کر ایسے بل، تجاویز اور قانون سازی کے منصوبے تیار کریں جو نظام میں دیرپا تبدیلی لا سکیں۔کامیاب تحریک کا اختتام ایک بہتر نظام کی تشکیل پر ہونا چاہیے جو شفاف، جوابدہ اور عوامی مفاد کا محافظ ہو۔ انتظامی اور حکومتی اداروں میں عوامی شمولیت بڑھائیں، نگرانی اور احتساب کے میکانزم مضبوط کریں، اور فیصلہ سازی میں عوامی نمائندگی کو یقینی بنائیں۔تحریک کی کامیابی کا سب سے بڑا عنصر عوامی شعور اور شمولیت ہے۔

صرف قیادت یا کمیٹی نہیں بلکہ ہر شہری کا فعال کردار ضروری ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ تحریک کے تمام مراحل میں آگاہی، مشاورت اور عملی شمولیت جاری رکھیں۔مقامی سطح پر قائم کمیٹیوں میں تربیت یافتہ نمائندے تیار کریں، اور قانونی و آئینی عمل کو عوام تک پہنچائیں۔تحریک کی طاقت اس کے اصولوں پر ڈٹے رہنے میں ہے۔ وقتی مشکلات، دباؤ یا مخالفت کے باوجود اصولی موقف پر قائم رہنا ہی تحریک کی کامیابی کی ضمانت ہے۔

ہر فیصلہ اور ہر عمل عوامی بھلائی کےاصولوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ تحریک کے اگلے مرحلے میں عوام کو چاہیے کہ وہ احتجاج سے آگے بڑھ کر سیاسی، قانونی اور نظامی اصلاحات کے میدان میں بھی اپنا کردار ادا کریں۔ شفاف قیادت، فعال عوامی شمولیت، اصولی موقف اور قانونی دستاویزات کے ذریعے اپنے حقوق کو مضبوط بنیادوں پر حاصل کر سکتے ہیں۔ یہی وہ راستہ ہے جو عوام کو ایک منصفانہ، شفاف اور مضبوط نظام فراہم کرے گا۔

٭٭٭

Share this content: