وزراء کی ’’غریبوں جیسی‘‘ مراعات ، فیصل ممتاز راٹھور کا سرکاری بیانیہ بے نقاب ۔۔۔ خواجہ کاشف میر

کمال ہے جی! ایکشن کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کیلئے بنائی گئی حکومتی مصالحتی کمیٹی کے چیئرمین فیصل ممتاز راٹھور صاحب اب بھی عوام کو گمراہ کرتے دکھائی لگے ہیں۔ گزشتہ روز ایک نیم سرکاری ڈیجیٹل چینل پر فرمانے لگے کہ وزراء کی تنخواہیں تو محض دو لاکھ روپے ہیں، یہ سن کر تو ایکشن کمیٹی والے بھی حیران رہ گئے۔ گویا بیچارے وزراء ’’بھوکوں مر رہے‘‘ ہیں!

فیصل ممتاز راٹھور صاحب، آپ نے سیاسی جدوجہد ضرور کی، لیکن انوارالحق حکومت میں آ کر جھوٹ کی ایسی مشق شروع کی کہ سرکاری بیانیہ ساز بھی شرما گئے۔ آپ نے الیکشن کمیشن کے اپنے گوشواروں میں دو سال پہلے خود لکھ کر دیا ہے کہ آپ کی سالانہ تنخواہ4701551 روپے ہے جو ماہانہ 391795 روپے بنتی ہے ۔ آپ ہی کے رفیق خاص وزیر داخلہ کرنل ریٹائرڈ وقار نور نے الیکشن کمیشن میں یہ جو گوشوارے گزشتہ سال جمع کرائے، ان میں صاف لکھا ہے کہ ان کی ماہانہ تنخواہ 3 لاکھ 56 ہزار 479 روپے ہے اور یہ پرانی رقم ہے، بجٹ میں اس میں مزید اضافہ ہو چکا ہے لیکن حضور! یہ صرف تنخواہ ہے، اصل کھیل تو اس کے بعد شروع ہوتا ہے۔ دس قسم کے الاؤنسز، ٹی اے ڈی اے، ذاتی سٹاف، سرکاری گاڑیاں، فیول اور نہ جانے کیا کچھ، وہ سب بھی ’’غریب‘‘ وزراء کے حق میں جاتا ہے۔

لیکن صاحب! عوام کو سب کچھ پتہ ہے۔ کہانیاں صرف تنخواہ اور الاؤنس تک محدود نہیں رہتیں۔ سڑکوں، پلوں اور اسکیموں کے ٹھیکوں میں وزراء کی شراکت داری زبان زدِ عام ہے۔ آپ کے اپنے ذاتی سٹاف کے ذریعے ٹرانسفر اور پوسٹنگ پر آپ کے نام سے کے جانے والی فی فائل رشوت کی بازگشت عام ہے۔ عوام کو یہ ڈرامہ اچھی طرح سمجھ آ چکا ہے اور اسی لیے وہ آپ وزراء کے دوہرے چہروں کو منافقت کہتے ہیں۔

اب آتے ہیں آپ کے ’’وعدوں‘‘ کی طرف۔ آپ ہی تھے حکومتی مصالحتی کمیٹی کے چیئرمین، آپ ہی نے 8 دسمبر 2024 کو عوامی ایکشن کمیٹی سے تحریری معاہدہ کیا۔ پھر وفاقی وزراء کے دباؤ پر دوبارہ مذاکرات میں بیٹھے لیکن نو مہینے گزر گئے اور منظور شدہ مطالبات کا کچھ نہ ہوا۔ مس کمیٹمنٹ کا عالمی ریکارڈ شاید آپ ہی کے حصے میں آئے گا۔

فیصل صاحب! اب یہ وقت گزر گیا کہ آپ آرام سے جھوٹا بیانیہ بنا کر پتلی گلی سے نکل جائیں۔ آپ کی گمراہ کن باتوں اور سرکاری جھوٹ کو ہر محاذ پر بے نقاب کیا جائے گا۔ آپ اور آپ کے دیگر وزراء صاحبان کے حلقوں کی اسکیموں پر آنے والے کروڑوں روپے کہاں جاتے ہیں، اس کا بھی حساب لیا جائے گا۔ اندرون و بیرون ملک سرمایہ کاریوں کا بھی پیچھا ہوگا۔

کہانی وزیر کی تنخواہ سے شروع ہوئی تھی اور ثبوت سمیت آپ کا جھوٹ بیچ چوراہے میں پکڑا جا چکا ہے۔ باقی جہاں تک 29 ستمبر کے عوامی لاک ڈاؤن کی بات ہے، تو عوام یہ احتجاج شوقیہ نہیں کر رہے، بلکہ آپ جیسے حکمرانوں کے رویوں اور عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف کر رہے ہیں۔

٭٭٭

Share this content: