پاکستانی جموں کشمیر میں عوامی حقوق کی تحریک اور پارلیمانی جماعتوں کا کردار (2023–2025)

خواجہ کبیر احمد

2023 سے پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی عوامی حقوق کی تحریک نے نہ صرف مقامی سیاست کا منظرنامہ بدل دیا بلکہ عوام اور سیاسی جماعتوں کے تعلقات پر بھی گہرے نقوش سبت کر دئیے۔ اس تحریک کو محض ایک احتجاجی مہم کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا، بلکہ یہ ایک عوامی شعور کی تحریک ہے جس نے ریاستی اداروں اور منتخب نمائندوں کی محدودیت، عوامی مطالبات کے تئیں لاتعلقی، اور سیاسی مفادات کے پس پردہ اقدامات کو عیاں کیا۔

جموں کشمیرجوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی بنیاد ایک عوامی اتحاد پر رکھی گئی، جس میں تاجر تنظیمیں، وکلا، طلبہ یونینیں، اساتذہ اور سول سوسائٹی شامل تھے۔ یہ اتحاد کسی مخصوص سیاسی جماعت یا رہنما کے زیر اثر نہیں تھا، اور اس کا مقصد بنیادی عوامی حقوق، معاشی انصاف اور اشرافیہ کی مراعات کے خاتمے کے لیے آواز بلند کرنا تھا۔تحریک کے ابتدائی مطالبات بالکل عام اور معاشرتی انصاف کے لحاظ سے بنیادی نوعیت کے تھے،بجلی، اور دیگر بنیادی سہولیات کے نرخوں میں کمی،گندم اور دیگر زرعی مصنوعات کی سبسڈی مقامی وسائل پر مقامی عوام کے حقِ ملکیت کی بحالی، ٹیکس اور محصولات میں شفافیت اور منصفانہ تقسیم،ان مطالبات نے عوام میں براہِ راست اپیل پیدا کی کیونکہ یہ روزمرہ کی زندگی، معاشی دباؤ، اور بنیادی انسانی حقوق سے جڑے ہوئے تھے۔جموں کشمیرجوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک جب شروع ہوئی، تو زیادہ تر پارلیمانی جماعتوں کا ردعمل محتاط اور دوری اختیار کرنے والا رہا۔

مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، اور مسلم کانفرنس وغیرہ نے تو تحریک کو ’’غیر سیاسی‘‘ اور ’’غیر منظم عوامی دباؤ‘‘ قرار دیا،اسے ،بعض رہنماؤں نے اسے بھارت یا را کی فنڈنگ کے ساتھ جوڑ کر عوام میں شک پیدا کرنے کی کوشش کی،یہ ردعمل اس خوف کا مظہر تھا کہ ایک آزاد اور خودمختار عوامی تحریک روایتی سیاسی اجارہ داری کو چیلنج کر رہی تھی۔ سیاسی جماعتوں کے لیے یہ ایک وجودی خطرہ تھا کیونکہ جموں کشمیرجوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات براہِ راست عوامی فلاح، شفافیت، اور مقامی اختیار کے حق میں تھے، جس سے حکومتی ڈھانچے پر دباؤ بڑھ رہا تھا۔

جموں کشمیرجوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک کو کمزور کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں اور سرکاری حلقوں نے اس تحریک کے خلاف شدید بیانیہ سازی کی،اسے بھارت کی سازش یا را فنڈڈ ایجنڈا قرار دیا گیا،میڈیا میں اس کی کردار کشی کی گئی اور اسے ’’ریاست مخالف عناصر‘‘ کی تحریک قرار دیا گیا،عوامی جلسوں اور مظاہروں کے دوران جموں کشمیرجوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کو گرفتاری، دھمکیوں اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا،یہ بیانیہ دو مقاصد رکھتا تھا ایک عوام میں خوف پیدا کرنا اور تحریک کی حمایت کم کرنا دوسرا اپنے سیاسی اور حکومتی رویے کو جائز ثابت کرنا، اور عوامی مطالبات سے دھیان ہٹانا،حیران کن بات یہ ہے کہ اس دباؤ کے باوجود جموں کشمیرجوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے عوامی حمایت کھوئی نہیں۔ برعکس، مظاہروں اور احتجاجی سرگرمیوں میں شرکت میں اضافہ ہوا، اور عوام نے اسے ایک حقیقی عوامی بیداری کی تحریک کے طور پر قبول کیا۔

جموں کشمیرجوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی مقبولیت کی بنیادی وجہ اس کی غیر جماعتی اور شفاف قیادت تھی۔ عوام نے محسوس کیا کہ یہ تحریک کسی سیاسی مفاد یا انتخابی سیاست کے تحت نہیں ہے، بلکہ حقیقی عوامی مسائل کے لیے ہے۔جیسے جیسے جموں کشمیرجوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک نے زور پکڑا، سیاسی جماعتیں آپس میں متحد ہونا شروع ہو گئیں یہ کہا جا تو غلط نا ہو گا کہ انتہائی سیاسی مخالفین کو ایک جگہ جمع ہونے پر بھی جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ہی نے تمام سیاسی جماعتوں کو مجبور کر کے رکھ دیا مفاداتی سیاسی جماعتوں کے ان اقدامات کا مقصد اکثر سیاسی مفاد یا عوامی دباؤ کا شکار تھا نہ کہ حقیقی، جموں کشمیرجوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنما اور عوامی حلقے اکثر ان جماعتوں کو صرف اپنی سیاسی پوزیشن مضبوط کرنے والے سمجھتے ہیں2023–2025 کے دوران جموں کشمیرجوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے احتجاجی مظاہروں اور عوامی جلسوں کے دوران متعدد مرتبہ عوام کو نا صرف گرفتاریوں اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا بلکہ نوجوانوںکی نعشیں أٹھائیں جنہوں نے عوامی حقوق کے حصول کی اس جدوجہد میں فورسز کے ہاتھوں اپنے سینے پر گولیاں کھائیں اور تاریخ میں امر ہو گئے۔

اس کے علاوہ پولیس نے کئی مظاہروں پر لاٹھی چارج، آنسو گیس اور فائرنگ کی سیکڑوں افراد زخمی ہوئے، رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا،کھلی دھمکیاں دی گئیں،یہ اقدامات اس بات کے واضح مظہر تھے کہ ریاستی اور سیاسی ادارے جموں کشمیرجوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی طاقت اور عوامی حمایت سے خوفزدہ تھے۔چونکہ جموں کشمیرجوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک نے پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کی سیاست میں کئی اہم اثرات مرتب کیے، اس تحریک کے دوران عوام نے محسوس کیا کہ ان کے بنیادی حقوق کے لیے آواز اٹھانا ممکن ہے، اور یہ کہ منتخب نمائندے عوامی مفاد میں نہیں سوچتے۔

پارلیمانی جماعتوں کی مخالفت اور دوغلا رویہ عوام کے لیے واضح ہو گیا،عوام نے مطالبات کو حقیقی اور غیر سیاسی طور پر شعوری بنیاد پرقبول کیا،سیاسی جماعتیں خوفزدہ، دوغلی اور موقع پرست رہی،تحریک نے واضح کیا کہ عوامی حقوق کے حصول میں غیر جماعتی اور مقامی قیادت سب سے مؤثر ہو سکتی ہے،یہ تحریک پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں ایک نیا سیاسی شعور پیدا کرنے کے مترادف ہے، جو روایتی سیاستدانوں کے لئے ایک چیلنج بن گئی ہے۔2023–2025 کے دوران جموں کشمیرجوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک نے پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں سیاسی منظرنامہ بدل دیا۔

یہ صرف احتجاج نہیں بلکہ ایک عوامی بیداری کی تحریک ہے جس نے یہ ثابت کیا کہ عوامی حمایت کسی بھی سیاسی دباؤ یا دھمکی کے باوجود برقرار رہ سکتی ہے،پارلیمانی جماعتیں عوامی مسائل کے بجائے اپنے سیاسی مفادات کو ترجیح دیتی ہیں،حقیقی عوامی قیادت عوام کو زیادہ متاثر کر سکتی ہے اور نظام پر دباؤ ڈال سکتی ہے۔جموں کشمیرجوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک نے یہ بھی واضح کیا کہ عوامی مطالبات کی کامیابی صرف مظاہروں اور احتجاج سے ممکن نہیں بلکہ اس کے ساتھ مضبوط قیادت، شفافیت، اور سیاسی دباؤ کے لیے حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں جموں کشمیرجوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کا یہ تجربہ مستقبل میں دیگر عوامی تحریکوں کے لیے مشعل راہ اور سیاسی شعور کا ایک معیار قائم کرتا ہے۔

٭٭٭

Share this content: