مظفرآباد /کاشگل نیوز خصوصی رپورٹ
آج 8 اکتوبر 2025 کو اس ہولناک سانحے کو 20 برس بیت گئے، جب 2005 میں پاکستان زیر انتظام مقبوضہ جموں و کشمیر اور خیبرپختونخوا کے پہاڑوں میں آنے والے تباہ کن زلزلے نے لمحوں میں بستیاں اجاڑ دیں، زندگیوں کو ملبے تلے دفن کر دیا اور تاریخ کی ایک ایسی دردناک داستان رقم کی جو آج بھی زخم تازہ کر دیتی ہے۔
ریکٹر اسکیل پر 7.6 شدت کے اس زلزلے نے صرف چند سیکنڈز میں جموں و کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد، باغ، راولا کوٹ، بلکوٹ، بالاکوٹ اور دیگر پہاڑی علاقوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 87 ہزار افراد جاں بحق، 1 لاکھ 38 ہزار سے زائد زخمی، اور 35 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے۔ ہزاروں اسکول، سرکاری عمارات، اسپتال، سڑکیں، اور پل تباہ ہوگئے۔
ابتدائی دنوں میں عالمی برادری اور پاکستانی عوام نے دل کھول کر امداد دی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بحالی کے وعدے فائلوں میں دفن ہوتے گئے۔ متاثرہ علاقوں میں آج بھی ہزاروں اسکول خیمہ بستیوں یا نیم پختہ عمارتوں میں چل رہے ہیں۔ کئی اسپتال جو عارضی بنیادوں پر قائم کیے گئے تھے، آج بھی "عارضی” ہی ہیں۔ مظفرآباد، باغ، اور نیلم ویلی کے درجنوں دیہات ایسے ہیں جہاں زلزلے کے بعد سے کوئی بنیادی ڈھانچہ مکمل نہیں ہو سکا۔
زلزلے کے بعد قائم کردہ ادارہ ERRA (ایرا) اور SERRA نے بحالی و تعمیر نو کے بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان کیا تھا، مگر دو دہائیاں گزرنے کے باوجود بیشتر منصوبے ادھورے ہیں۔ متاثرین شکایت کرتے ہیں کہ حکومت اور متعلقہ ادارے صرف برسی کے دن یاد کرتے ہیں، چند تصویری تقاریب اور دعائیہ اجتماعات کے بعد پھر سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے۔
زلزلے کے 20 سال بعد بھی جموں و کشمیر کے شہری یہ سوال کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ کروڑوں اور اربوں روپے کی غیرملکی امداد کہاں گئی؟ اسکول اور اسپتال کیوں مکمل نہ ہو سکے؟ سڑکیں آج بھی کھنڈر کیوں ہیں؟
متاثرہ علاقوں کے باسیوں کا کہنا ہے کہ زلزلے کی اصل تباہی عمارتوں کی نہیں بلکہ حکومتی بے حسی کی تھی۔ ایک مقامی سماجی کارکن کے بقول:
ہم نے ملبے سے خود اپنے پیاروں کو نکالا، اب 20 سال بعد بھی انصاف اور بحالی کا انتظار کر رہے ہیں۔ حکومت ہر سال تعزیت کرتی ہے مگر کوئی عملی اقدام نہیں ہوتا۔
دوسری جانب حکومتی نمائندے یہ مؤقف رکھتے ہیں کہ وسائل کی کمی، موسمی حالات اور جغرافیائی رکاوٹوں کے باعث بحالی کا عمل سست ہوا، مگر عوام اس وضاحت کو "بہانے بازی” قرار دیتے ہیں۔
زلزلے کی یہ برسی ایک یاد دہانی ہے کہ قدرتی آفات تو آزمائش ہوتی ہیں، لیکن اصل زخم وہ ہیں جو انتظامی نااہلی، بدعنوانی، اور بے حسی سے لگتے ہیں — اور یہ زخم آج بھی جموں و کشمیر کے پہاڑوں میں تازہ ہیں۔
Share this content:


